• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکا کو خوش کرنے کے لیے ہم نے تمام حدیں پار کر دیں جس کے لیے اپنے ملک کا قانون دیکھا نہ آئین۔ کبھی امریکی دبائو میں تو کبھی اس لیے کہ کسی طرح امریکا بہادر خوش ہو جائے ہم نے اپنے لوگوں کو بیچا، انہیں مارا، جس کو امریکا نے کہا اُسے اپنا دشمن بنا لیا۔ اپنا سب کچھ امریکا کے حوالے کیا۔ کیا ہماری فضائی حدود تو کیا ہمارے ہوائی اڈے جو کچھ امریکا نے مانگا ہم نے فراہم کر دیا لیکن وہ پھر بھی ہم سے کبھی خوش نہ ہوا اور نہ کبھی ہو گا۔ اپنے ستر ہزار لوگ جن میں ہزاروں فوجی، پولیس والے، ایف سی وغیرہ کے اہلکار شامل تھے کو شہید کروا دیا لیکن امریکا نے ہمیشہ ڈو مور (Do more) کی ہی رٹ لگائی رکھی۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود آج بھی امریکا پاکستان کو شک کی ہی نظر سے دیکھتا ہے اوراب خطرہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان پر مزید دبائو بڑھائے گی۔ غدار پاکستان ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکا کے حوالے کرنے کی خبریں تو پہلے ہی گرم ہیں اور ایک امریکی اخبار نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ چند ماہ تک ڈاکٹر آفریدی کو امریکا روانہ کر دیا جائے گا جس کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان رازداری میں بات چیت بھی ہو رہی ہے۔ اگر اس غدار کے بدلے امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ کی واپسی ممکن ہو تو سودا گھاٹے کا نہیں لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور امریکا کی خوشی کے لیے ڈاکٹر آفریدی کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو پھر غداری اور ملک دشمنی کی اس سے بڑی حوصلہ افزائی نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف امریکا اور بھارت پاکستان مخالف ایجنڈے کے لیے متحد ہو رہے ہیں جس کا مقصد امریکا کے بعد پاکستان کو بھارت کے سامنے جھکانا ہے جس کے لیے پہلے ہی کام شروع ہو چکا ہے۔ حال ہی میں بھارت کی خواہش اور امریکا کے دبائو پر پاکستان کی حکومت نے حافظ سعید صاحب کو نظر بند کر دیا جبکہ اُن کی تنظیموں پر بھی پابندی عائد کر دی۔ اس بارے میں فوج کے ترجمان نے بھی کہا کہ یہ اقدامات ریاست کی پالیسی کے مطابق اور ملکی مفاد میں اٹھائے گئے۔ بھارت بجائے اس کے کہ اس پر خوش ہوتا ، وہاں سے بھی ڈو مور ڈو مور کے مطالبات آنا شروع ہو گئے۔ بھارت کہتا ہے کہ وہ مطمئن نہیں۔ شاید بھارتی ڈو مور کے نتیجے میں فلاح انسانیت فاونڈیشن جو پاکستان بھر میں فلاحی کاموں میں مصروف عمل رہی اُس کو یہ کام کرنے سے بھی روکا جا رہا ہے۔ پہلے امریکا کے ڈر سے ہم نے اپنا حلیہ بگاڑ دیا اور بھارت کو بھی خوش کرنے میں اب ہم لگ گئے جس کے نتائج بہت سنگین ہو سکتے ہیں۔ ویسے ہمارے میڈیا میں موجود ایک طبقے نے حافظ سعید اور ان کی تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کے لیے بھارت کی خوب وکالت کی اور اُس کا کیس زبردست انداز میں لڑا۔ بھارت حافظ سعید کو دہشت گرد کہتا رہا اور شور مچاتا رہا کہ پاکستان میں حافظ صاحب کیسے آزاد گھوم پھر رہے ہیں۔ یہی کچھ ہمارے کئی اینکرز اور میڈیا کے دوسرے بڑے کہتے اور کہلواتے رہے ۔ اس پروپیگنڈے نے حکومت کو بھی خوب متاثر کیا۔ پہلے تو ہماری حکومت کہتی رہی کہ ثبوت دو ثبوت دو لیکن یہ کہتے کہتے اب خود ہی بیرونی دبائو میں آ کر حافظ سعید اور کئی دوسروں کو قید کر دیا۔ کیا کوئی نئے ثبوت آ گئے؟؟؟ یا قومی مفاد میں اب ہماری بھارت کو خوش کرنے کی باری ہے۔ ویسے انہی حافظ سعید کو ماضی میں جب بند کیا گیا تھا تو عدالت نے عدم ثبوت کی بنیاد پر آزاد کر دیا تھا۔اصول کی بات یہ ہے کہ اگر کسی فرد نے پاکستان کے اندر یا کسی دوسرے ملک میں دہشتگردی کی تو اسے کسی دوسرے کے کہے بغیرکٹہرے میں لا کھڑا کریں لیکن جب حکومت خود کہتی ہے کہ ایسا نہیں تو پھر اس سب کاروائی کا کیا جواز۔ چلیں حافظ سعید کو تو نظر بند کر دیا گیا، اب بتائیں کیا کریں کہ بھارت ہم سے خوش ہو جائے کیوں کہ اس کاروائی سے وہ راضی نہیں۔ اب تو حکومت پاکستان نے بھارتی فلموں کی پاکستان کےسنیما گھروں میں نمائش کی اجازت بھی دے دی جبکہ بھارت میں پاکستانی فنکاروں کو قدم رکھنے کی اجازت نہیں لیکن اس کے باوجود بھارت سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ بھارت کی خوشنودی کے لیے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات پاکستان کو اُس رستے پر ڈال دیں گے جس کی منزل بھارت کی غلامی ہے۔ اور اس صورت میں ہم سے یہ بھی توقع کی جائے گی کہ کشمیر کو بھول جائو اور اس بارے میں بات کرنا بھی دہشتگردی کے مترادف سمجھا جائے گا۔ یاد رکھیں امریکا اور بھارت پاکستان کو مستحکم نہیں دیکھ سکتے۔ دونوں کی خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان کی دفاعی طاقت اور خصوصاً اس کے ایٹمی پروگرام سے اسے محروم کر دیا جائے۔ ہمیںحکمت کے ساتھ ان سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے نہ کہ ایسے فیصلوں سے جو ہمیں اندر سے تقسیم در تقسیم کر تے رہیں۔

.
تازہ ترین