• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیلسن منڈیلا جب 28سال جیل کاٹ کر رہا ہوا تھاوہ جانتے تھے کہ جس مقصد کے لئے انہوں نے 28سال جیلوں میں گزارے ہیں وہ کتنے عظیم ہیں ۔ ان کی قوم، ان کا ملک، ان سے توقع وابستہ کر رہا تھا۔ مغربی سامراج سے 200 سال کی طویل اور خون آشام جدوجہد کے بعد جنوبی افریقہ کے عوام کیا چاہتے تھے۔ آزادی پسند تحریکوں اور مائو مائو تحریک کے ہزاروں جوان پھانسیوں پر لٹک گئے یا مزاحمتی جنگ میں مار دیئے گئے۔ جنہیں اس وقت کا مغربی پریس دہشت گرد اور تخریب کار لکھ رہا تھا۔ مائو مائو تحریک کے نوجوان کو مارنا کسی سے بھی زیادہ آسان تھا، کیونکہ جنوبی افریقہ کے کالوں کو کسی قسم کے انسانی حقوق حاصل نہ تھے۔ کوئی عدالت، کوئی انصاف، یہاں تک کہ کالے لوگوں کو گوری اقلیت کے راستوں پر چلنے اور ان کے ہوٹلوں میں جانے کا حق نہیں تھا۔ حقوق کہاں سے ملتے؟ نیلسن منڈیلا نے اپنے استقبالی جلسے میں لاکھوں عوام سے خطاب کیا اور کہا کہ میں نے آپ کی آزادی، عزت اور انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کی ہے اور اپنی زندگی کے 28سال قید میں اور 12سال روپوشی میں گزارے۔ آج آپ آزاد ہیں۔ اب میں آپ سے ایک وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ ہماری کالی اور گوری بیورو کریسی، افریقہ اور میری تحریک کے پر تشدد نوجوان، فنکار، سیاستدان، پریس اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آج سے سچ بولیں گے اور ان کلبوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جہاں آنے والے لوگ اپنے گناہوں کا اقرار کریں اور سچ بولیں ان کے سابقہ اعمالوں کی کوئی باز پرس نہیں ہو گی ہمیں ایک نئے افریقہ کی بنیاد شرافت، سچائی اور تیز رفتار ترقی پر رکھنا ہوگی۔ اسی سچائی کی بنیاد پر نیلسن منڈیلا نے غیر جانبدار تحریک کے ممالک کی کانفرنس میں مسئلہ کشمیر اٹھا کر تمام دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ بھارت اپنی خارجہ پالیسی پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود شرمناک طور پر عیاں ہو گیا ۔ہمیں جانبدار قرار دینے والا ملک اب اس بڑے اور کڑوے سچ سے پریشان ہے اور انشاء اللہ کشمیری حریت پسندوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔
منڈیلا کی اس تقریر کا وہاں کے عوام پر بے پناہ اثر ہوا اور دنیا میں آزادی کیلئے لڑنے والوں کو طاقت ملی۔ گزشتہ 60سال میں ایشیا اور افریقہ کے بے شمار ملک آزاد ہوئے اور بعض ابھی تک خانہ جنگی میں مبتلا ہیں جن میں انگولا، روانڈا، نائیجیریا، یوگنڈا، ویت نام، کوریا اور افغانستان شامل ہیں۔ خود پاک و ہند بھی شدید خونریزی کے بعد آزادی سے ہمکنار ہوئے جنوبی افریقہ جو براعظم افریقہ کا بہت بڑا ملک ہے وہاں آزادی کے بعد ایک نکسیر بھی نہیں پھوٹی اور کسی کالے نے ایک بھی گورے کو قتل نہیں کیا ،یہ ملک اب ترقی کے دور میں داخل ہو کر بین الاقوامی طور پر ایک موثر کردار ادا کر رہا ہے۔
ہم 69سال پہلے آزاد ہوئے ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ جس نے ہماری آزادی حاصل کرنے میں رہنمائی کی تھی اور ایک ایسا سچا اور کھرا قائد جس نے ہمیں ایک شاندار نصب العین دیا اور جس کی دیانتداری اور سچائی کے اس کے دشمن بھی معترف تھے، قائد اعظم محمد علی جناح کی امین جماعت پاکستان کی حکمراں ہے ان کے علاوہ ہم اسلام کے پیروکار ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ملک لا الہ الا اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا ہے فتح مکہ کے بعد حضور ﷺ نے جو خطبہ دیا وہ موجود ہے۔ قرآن کی رہنمائی بھی حاصل ہے اور اسلام میں بھی سچ بولنے کو بہت فوقیت دی گئی ہے بلکہ جھوٹا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے کیا ہم سچ نہیں بول سکتے؟ہمارے قائدین معاشرے کے تمام طبقوں سے یہ اپیل نہیں کر سکتے کہ آئو سچ بولیں، سخت قانون اور تعزیری سزائوں کے ذریعے ہم لوگوں کے اخلاق درست نہیں کر سکتے بلکہ پہلے انہیں ایک اخلاقی معاشرہ دینا پڑے گا جس میں ایک بچے کے رونے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیدائش سے ہی بیت المال کا وظیفہ مقرر کردیا تھا۔
نیلسن منڈیلا نے ایشیائی ملکوں کے لئے ایک مثال قائم کی ہے جبکہ ہمارا دستور قرآن موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک کو اسلامی فلاحی معاشرہ دیا جائے تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو۔ سرکاری اہلکار خدا خوفی کا مظاہرہ کریں، قرآن پاک میں اللہ کا فرمان ہے کہ جس نے میری مخلوق سے پیار کیا اور اس کی فلاح چاہی وہ آخرت میں میری توجہ کا مستحق ہو گا اور یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ایک منظم مربوط تحریک کا آغاز کر دیں اور قوموں کی رہنمائی کا فرض انجام دیں اور یہی عظیم ترین سچائی ہے جسے ہم کڑوا سچ بھی کہہ سکتے ہیں اور اسی لئے کڑوا سچ ہی عظیم ہے۔

.
تازہ ترین