• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کاش کمزوری کا وہ لمحہ فراموشی کی دھند میں غائب ہوسکتاجب اسحاق ڈار نے کاغذ اور قلم منگواکر اپنے ہاتھ سے منی لانڈری کی طویل تاریخ رقم کردی۔ یہ بیان اُس خاندان کے مبینہ طور پر منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا اعتراف تھا جس کے وہ کئی برسوں سے اکائونٹینٹ رہے تھے ۔ وہ اعتراف کوئی دوچار سطروں کا نہیں، پورے تنتالیس صفحات پر محیط تھا۔ محترم نے کوئی تفصیل فروگزاشت نہیں کی۔ انٹرنیشنل بنکوں میں ’قاضی فیملی‘‘ کے نام سے کھولے گئے جعلی اکائونٹس کے بارے میں مسٹر ڈار بہت دیر سے جانتے تھے ۔ ان اکائونٹس میں پراسرار ذرائع سے رقم آتی اور پھر یہاں سے حدیبیہ پیپرملز کے کھاتے میں ٹرانسفر کی جاتی تھی۔
ہر مسلمان جانتا ہے کہ حدیبیہ وہ اہم جگہ تھی جہاں رسول ِ پاک ﷺ نے اپنے مخالفین، قریش ِ مکہ سے ایک معاہدہ تحریر فرمایا تھا۔ موجودہ حکمران خاندان ایک مذہبی گھرانہ ہے، چنانچہ پیپر ملز کے لئے اس نام کا انتخاب ان کے مذہب کے ساتھ لگائو کو ظاہرکرتا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ اس مقدس نام کا لحاظ کرتے ہوئے بھی وہ ان حرکتوں سے باز نہ آئے ۔ یقینا ہم اُس سے کہیں زیادہ سیکولر ہیں جتنا ہم اعتراف کرتے ہیں۔ ہم دین اور دنیا کے درمیان حائل لکیر کو تسلیم کرتے ہوئے بہتی گنگا میں بھی ہاتھ دھوتے ہیں اور مقدس پانی سے روحانی بالیدگی بھی حاصل کرنا نہیں بھولتے ۔ عبادت، روزہ اور دیگر دینی فریضہ جات کی ادائیگی آخرت کی مثالی زندگی میں کامیابی کے لئے ضروری، چنانچہ ان کا اہتمام اپنی جگہ پر،لیکن اس دنیا میں ہم قدرے زیادہ عملیت پسند واقع ہوئے ہیں۔
اب مسٹر ڈار کے اعتراف پر واپس آجائیں۔ نیب نے اُن سے زبردستی دستخط نہیں کرائے تھے ، اُنھوںنے تمام بیان اپنی مرضی سے تحریر کیا اور دستخط کردئیے ، اور اس کے عوض اُنھوں نے اپنے لئے رعایت مانگی۔ چونکہ انھوںنے اعترافات کا سریلا نغمہ گنگنادیا ، اس لئے اُن کا نام ’’ملزمان ‘‘ کی فہرست سے نکال دیا گیا۔ اس طرح وہ ایک طرح کے وعدہ معاف گواہ بن گئے ۔ شریف فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ تو ایک ہی کیس تھا، اس کے علاوہ دیگر بہت سے کیسز تھے، لیکن وہ سب کے سب عرب بھائیوں کی مہربانی کی وجہ سے معطل کر دئیے گئے اور پھر انہیں جیل سے نکال کر مقدس سرزمین پرجانے کی اجازت دے دی گئی ۔ مشرف دور کے آخری ایام میں جب نام نہاد این آراو کے تحت بے نظر بھٹو پاکستان آگئیں تو نواز شریف نے بھی پاکستان کی راہ لی۔ اس سے قومی منظر نامہ تبدیل ہوگیا۔
اس کے بعد محترمہ کی ہلاکت نے مشرف حکومت کو ہلا کررکھ دیا،اورہونے والے انتخابات میں ’’کنگز پارٹی‘‘(ق لیگ) بری طرح ہار گئی ۔ مرکز میں اقتدار پی پی پی کے ہاتھ آگیا جبکہ پی ایم ایل (ن) کو پاکستانی سیاست کے دل، پنجاب کی حکومت مل گئی ۔ خیر اس میں بھی آصف زرداری کا تعاون شامل تھا۔ پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) ایک دوسرے کے قریب آگئے ، اور اس ماحول میں کسی کو دوسرے کے خلاف پرانے کیسز، جس میں اسحاق ڈار کے اعتراف پر مبنی حدیبیہ پیپر ملز کا کیس بھی شامل تھا، کھولنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ شریف برادران اور آصف زرداری نے فوری طور پر عدالتوں کا رخ کرتے ہوئے ان مقدمات کو ختم کرالیا۔ اسحاق ڈار نے کیے گئے اعتراف کو بھی منسوخ کرالیا۔ چونکہ یہ تمام میچ فرینڈلی وکٹ پر ہورہاتھا، اس لئے نیب نے بھی اپیل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی ۔
ہم تصور کرسکتے ہیں کہ اسحاق ڈار نے سکون کا سانس لیا ہوگا۔ مشرف دور میں قید وبند اتنی سخت نہ تھی جتنا بلیغ بیان اُنھوںنے دے دیا تھا۔ چنانچہ اب وہ ڈرائونا خواب ختم، گلے میں لٹکا ہوا جرم کا نشان غرقاب ، موصوف طمانیت سے دامن جھاڑتے ہوئے نئی منزل کے راہی ہوئے ۔ یہ بات بھی ہے کہ مشرف بہرحال ایک حکومت کا تختہ الٹنے والے جنرل تھے ، چنانچہ اُن کے دور میں شریف برادران کے خلاف جتنے بھی الزامات عائد کیے گئے تھے ، قطع نظر اس سے کہ کیا وہ درست تھے یا غلط، دانشور، سیاسی طبقے اورنام نہاد سول سوسائٹی ،جوآمریت کی مذمت اور جمہوریت کی نقابت کرتے کرتے بے حال ہوچکی ہے، کے نزدیک اخلاقی وقعت نہیں رکھتے تھے ۔ اس کے نزدیک بدعنوانی اور احتساب کی بات کرنا غیر ملکی ایجنڈا تھا۔
آصف زرداری چالاک ضرور تھے ، لیکن شریف برادران اُن سے بھی زیادہ کائیاں نکلے ۔ اُنھوںنے اپنی مالیاتی بازیگری پر ابہام کا پردہ ڈال کرپی پی پی کے کارناموں کو نمایاں کردیا۔ اس میں اُنہیں بحال کیے جانے والے چیف جسٹس کا تعاون بھی حاصل رہا ۔ اُن کے از خود نوٹس کی تلوار پی پی پی پر تو پیہم گرتی رہی لیکن اس کا رخ پی ایم ایل (ن) کی گردن کی طرف نہ ہوا ۔ اس میں حیرت کی بات نہیں کہ جب 2013ء کے انتخابات کاطبل بجا تو پی پی پی ایک بدعنوان ٹولہ ، جبکہ شریف برادران گڈ گورننس کے چیمپئن قرارپا چکے تھے ۔ یہ بات درست ہے کہ جنرل راحیل شریف کوملنے والی شہرت ان کے لئے پریشان کا باعث بن گئی تھی ، کیونکہ حکمران کسی کو مقبولیت میں آگے کیونکر دیکھ سکتے ہیں، اور پھر 2014ء کے دھرنوں نے حکومت کا کم و بیش تختہ الٹ ہی دیا تھا، تاہم اس موسم ِ سرما میں جنرل صاحب منصب سے رخصت ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ دھرنوں کا آسیب بھی قصہ ٔ پارینہ بن چکا ۔ چنانچہ یہ وہ وقت تھا جب موجودہ حکمران فاتحانہ طور پر مستقبل کےامکانات کی طرف کیف بھری نگاہوںسے دیکھتے ۔
لیکن یہ کیا؟ پاناما پیپرز بلائے ناگہانی کی طرح نازل ہوئے اور سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعتوں نے ان کی سٹی گم کردی۔ اب ان سے پریشان کن سوالات پوچھے جارہے ہیں جن کا ان کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔ ماضی میں دفن کردہ بھوت، جیسا کہ محترم اسحاق ڈار کے اعترافات ، باہر نکل کر روز ِ روشن میں ان کے سامنے کھڑے ہیں۔ جب مسٹر ڈار کے وکیل نے سپریم کورٹ کے سامنے کہا کہ اُن کا بیان اُن کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتا تو اُنہیں بتایا گیا کہ ٹھیک ہے، لیکن کیا یہ وزیر ِاعظم کے خلاف بھی استعمال نہیں ہوسکتا ؟ہم نہیں جانتے کہ ان اعترافات کی قانونی اہمیت کیا ہے ،اور ان سے کیا نتیجہ برآمد ہوگا ، لیکن شریف فیملی کے پاس پریشان ہونے کی وجہ موجود ہے کیونکہ سمندر پار اکائونٹس اورلندن جائیداد کا احاطہ کرنے والی منی ٹریل ان اعترافات میں موجود ہے ۔ اس تحریری اعتراف پر بنک اکائونٹس ، تاریخ ، ڈپازٹ اور ٹرانسفر کا سب حال رقم ہے ۔
پی ایم ایل (ن) کا دفاع ایک لفظ پر تکیہ رکھتا ہے ، جوکہ ’’زبردستی اعتراف لینا ‘‘ ہے ،جیساکہ گن پوائنٹ پر ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ بات کوئی نہیں کررہا کہ اعترافی بیان میں منی لانڈرنگ کی بیان کی گئی تفصیل غلط ہے ۔ اگر زبردستی غلط بیان لے لیا گیا تو پی ایم ایل (ن) کی دلیل کی گرد ن پر کوئی بوجھ نہیں ہونا چاہئے ، لیکن بوجھ تو محسوس کیا جارہا ہے۔ چنانچہ یہ ایک سیدھا سادا معاملہ ہے ۔ قاضی فیملی کے نام سے کھولے گئے اکائونٹ جعلی تھے، لیکن ’’قاضی ‘‘ حقیقی اور جیتے جاگتے انسان ہیں۔ وہ سامنے آکر کیوں نہیں کہتے کہ یہ سب کچھ غلط ہے ؟ اس کے علاوہ زبردستی اعتراف کی بات کرنے کی کیا تُک ہے جب اسحاق ڈار اور دیگر کہہ رہے ہیں کہ اعترافی بیان کا مواد غلط ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ قاضی اکائونٹ تھے ہی نہیں ،چنانچہ پراسرارفنڈز کی منتقلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر یہی حقیقت ہے تو پاناما کیس میں کوئی جان نہیں رہتی، اور مسٹر ڈار کا بھوت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن شد،لیکن وہ مواد کی تو بات کرہی نہیں رہے ، وہ کہہ رہے ہیں کہ بیان زبردستی لیا گیا تھا۔ اگر وہ مواد کو مسترد کردیں تو دبائو ڈال کر غلط بیان لینے کا الزام ثابت ہوجاتا ہے ۔ لیکن جب وہ دبائو کی بات کرتے رہیں لیکن اعتراف کے مواد کی صحت کی طرف نہ آئیں تو پھر ان کی بات کو ن تسلیم کرے گا؟یقینا مجرم کیے گئے اعتراف سے پھر جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف کی گئی سختی کی بات کرتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ الزام سرے سےہی غلط تھا۔ یہاں ایک احمقانہ چیز دیکھنے کو مل رہی ہے کہ ایک کیس ، جس پر ملک کے مستقبل کا دارومدار ہے ، میں ایک شخص بے سروپاباتیں کررہا ہے لیکن اصل الزام کی طرف نہیں آرہا۔



.
تازہ ترین