• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم رجب طیب ایردوان جو ملک کی تاریخ میں مسلسل تین بار اور طویل ترین مدت تک مسندِ وزارتِ عظمیٰ پربرا جمان رہنے کا ریکارڈ قائم کرچکے ہیں اب ملک میں صدارتی نظام کو متعارف کرانےکی جانب گامزن ہیں۔ ایردوان کی قیادت میں قائم ہونے والی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے اپنے قیام کے ایک سال بعد ہی اقتدار حاصل کرلیا تھا جو کہ ترکی کی تاریخ میں اپنی طرز کا انوکھا واقعہ تھا اور پھر یہ پارٹی تیزی سےترقی کرنے لگی اور اس کے ووٹوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ایردوان کے استنبول بلدیہ کے مئیر ہونے کے دور میں ہر طرف جو افواہیں پھیلانا شروع کردی گئی تھیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وزیراعظم ایردوان نے اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران کوئی ایسا قدم ہرگز نہ اٹھایا جس سے ان کے مخالفین کو ان پر انگلی اٹھانے کا کوئی موقع ملے بلکہ انہوں نے اپنے پہلے ہی دور اقتدار میں ایسا نظام اختیار کیا کہ وہ حلقے بھی جو ان کا نام بھی سننا گوارہ نہیں کرتے تھے ملک میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات کی وجہ سے ان کے گرویدہ ہوگئے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان سن دو ہزار تین سے دو ہزار چودہ تک وزیراعظم رہے ہیں اور دو ہزار چودہ میں صدر بننے کے بعد انہوں نے ملک میں صدارتی نظام متعارف کروانے کے لئے اپنی کوششوں کا آغاز کردیا اور آخر کار قومی اسمبلی میں گزشتہ دنوں دو مختلف مرحلوں میں آئین میں کی جانے والی ترامیم کے ذریعے پارلیمنٹ میں صدارتی نظام متعارف کروانے کے لئے آئین کی اٹھارہ شقوں کے بارے میں جو رائے شماری کروائی تھی اس میں صدارتی نظام متعارف کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پارلیمنٹ میں پہلے اور دوسرے مرحلے میں آئین کی اٹھارہ شقوں کے بارے میں کرائی جانے والی شقوں کو 337کے مقابلے میں 347ووٹوں سے کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ کامیابی دراصل ایردوان کی بہت بڑی کامیابی ہونے کے ساتھ حزب اختلاف کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی کے لئے بہت بڑی ہزیمت کا باعث بنی ہے لیکن چونکہ ری پبلکن پیپلز پارٹی جو ناکامیوں کو قبول کرنےکے فن سے پوری طرح آگاہ ہے اور جس کے لئے ناکامیاں اب کوئی معنی نہیں رکھتیں نے پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی ان ترامیم کے خلاف آئینی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا لیکن تقریباً تمام ہی ماہرین ِ قانون اس بات پر متفق ہیں کہ آئینی عدالت ان ترامیم کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں سنا سکتی کیونکہ ان تمام ترامیم میں کوئی ایسی بات نہیں جو آئین سے متصادم ہو لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ری پبلکن پیپلز پارٹی خود بھی آئینی عدالت سے اس کیس کے مسترد کئے جانے سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باوجودیہ راستہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ حزبِ اختلاف کی جانب سے اس قسم کا رویہ اپنائے جانے کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں پارلیمنٹ میں آئین میں ترامیم کی منظوری کے بعد صدارتی نظام سے متعلق ریفرنڈم ماہ اپریل میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اگرچہ ابھی تک اس سلسلے میں کسی حتمی تاریخ کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے تاہم ملک میں 9یا 16اپریل کو ریفرنڈم کرانے کی توقع کی جا رہی ہے۔
اس وقت تک ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے ریفرنڈم کے لئے اپنی اپنی حکمتِ عملی وضع کرلی ہے۔ اس وقت برسر اقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے ساتھ حزب اختلاف کی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP) نے ملک بھر میں ایک ساتھ اور الگ الگ صدارتی نظام کے حق میں اپنی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ عام انتخابات میں ایک فیصد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرنے والی دائیں بازو کی جماعتوں کے ووٹ بھی ریفرنڈم میں صدارتی نظام کے حق میں پڑنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس وقت تک مختلف اداروں کی جانب سے کروائے جانے والے سروےسے پتہ چلتا ہے کہ ماہ اپریل کے صدارتی نظام سے متعلق ریفرنڈم میں حمایت میں بڑے پیمانے پر ووٹ پڑیں گے اور اس طرح ملک میں آخر کار صدارتی نظام متعارف کرانے کی آخری دیوار کو بھی عبور کرلیا جائے گا۔
ملک کی حزب اختلاف کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی (CHP) اور حزب اختلاف کی ایک دیگر جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (HDP) نے صدارتی نظام کے خلاف اپنی مہم کو مشترکہ طور پر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ ملک کی تمام ہی سیاسی جماعتیں اور عوام کا ایک بڑا حصہ پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی پر دہشت گرد تنظیم پی کے کے، کی پشت پناہی کرنے اور اس کے سیاسی ونگ کا حصہ ہونے کا شور مچاتا چلا آرہا ہے یہ تیور حزبِ اختلاف کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی کے لئے بھی اچھے نہیں ہیں کیونکہ ان کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ جماعت مصطفیٰ کمال اتاترک کی تشکیل کردہ سیاسی جماعت ہے لیکن یہ جماعت اس وقت دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پیپلز ڈیمو کریٹک کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر صدارتی نظام کے خلاف مہم شروع کر چکی ہے۔ ری پبلکن پیپلز پارٹی جو گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل شکست کا سامنا کرتی چلی آرہی ہے صرف چند ایک مزید ووٹ حاصل کرنے کی امید کے ساتھ اپنی گرتی ہوئی سا کھ بہتر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جس سے وہ مزید کیچڑ میں دھنسی چلی جا رہی ہے حالانکہ اس جماعت کو اس بات کا پورا پوراا حساس ہے کہ اس پارٹی کے بانی رہنما مصطفیٰ کمال اتاترک اور عصمت انونو خود بھی ملک میں صدارتی نظام متعارف کرانے کے حق میں رہے ہیں اور ملک میں ان کے ادوار میں پارلیمانی نظام موجود ہونے کے باوجود واحد جماعتی نظام پر عمل درآمد ہوتا رہا اورکسی اور جماعت کو 1950ء تک انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی گئی۔
عوامی ریفرنڈم میں ان اصلاحات کی منظوری کے لئے سادہ اکثریت یا کم سے کم 51 فیصد ووٹ کی حمایت درکار ہوگی۔ریفرنڈم کے بعد جدید جمہوریہ ترکی میں پہلی بار صدارتی نظام قائم ہوجائے گا جب کہ نئے آئین میں صدر کے اختیارات میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔تاہم صدارتی نظام کی سب سے اہم خوبی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو ایک دوسرے سے نہ صرف الگ کرنا ہے بلکہ مکمل طور پر ایک دوسرے سے دبائو سے بھی دور رکھنا ہے۔ صدر ایردوان اور صدارتی نظام کے ناقدین نئے صدارتی نظام میں صدر کو پہلے سے زیادہ اختیارات حاصل ہونے اور صدر کے شتر بے مہا کی مانندعمل کرنے کا الزام عائدکرتے ہیں۔ پارلیمانی نظام میں صدر کسی بھی صورت پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ نہیں تھے نئے نظام کے تحت پارلیمنٹ صدر کی کارکردگی پر نظر رکھنے، صدرکسی غیر قانونی یا قومی مفادات کے منافی سرگرمی میں ملوث پائے جانے کی صورت میں پارلیمنٹ کے ارکان کی واضح اکثریت سے منظور کردہ قرار داد کی وجہ سے تفتیش کا سامنا کرنے پر مجبور نہیں ہو جائیں گے؟ فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔



.
تازہ ترین