• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نبی کریمﷺ کی عظمت و رفعت …سورۂ الم نشرح کی روشنی میں تحریر:عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ

(پہلی قسط)
سورہ الم نشرح (94/30)ارشاد حق تعالی ہے ۔
’’کیا ہم نے تمہارے لیے تمہارا سینہ کھول نہیں دیا(1) اور ہم نے تم پر سے وہ بوجھ اتار دیا(2) جوتمہاری کمر توڑے دے رہا تھا (3) اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا آوازہ بلند کر دیا(4) پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے (5) ہاں یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے(6) پس جب فارغ ہو تو کمربستہ ہوجاؤ(7) اور اپنے پروردگار ہی سے لو بڑھاؤ(8)
اس سورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پررب کریم کی شفقت و محبت کی ایک جھلک، محبوب کی سرگوشی کی خوشبو، خدائے تعالیٰ کے لطف و کرم کے مظاہر کا استحضار اور اس کی سرپرستی و حمایت کے مواقع بیان کیے گئے ہیں، اس میں کشائش و فراخی کی بشارت ہے۔ اس راز کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اور اپنے رب سے پختہ ربط و تعلق کی سبیل بتائی گئی ہے۔ اس کا مضمون سورہ ضحی سے اس قدر ملتاجلتاہے کہ یہ دونوں سورتیں قریب قریب ایک ہی زمانے اور ایک جیسے حالات میں نازل شدہ معلوم ہوتی ہیں۔ پہلے سورہ والضحیٰ اور اس کے بعد الم نشرح نازل ہوئی۔اس کا مقصد و مدعا بھی رسول اللہﷺ کو تسلی دینا ہے۔ سورہ والضحیٰ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جن الطاف و عنایات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کا ذریعہ بنایا ہے ان کا تعلق بعثت سے قبل یا ابتدائے بعثت کے دور سے ہے۔ اور اس میں جن افضال و احسانات کا حوالہ دیا ہے ، وہ اس دور سے تعلق رکھتے ہیں، جب آپ کی دعوت کا چرچا مکے سے نکل کر عرب کے دوسرے گوشوں میں بھی پہنچ چکاتھا۔ پچھلی سورہ میں آپ کو یہ بشارت دی گئی تھی کہ آپ کا مستقبل دعوت کے لحاظ سے ماضی کی نسبت بہت بہتر ہوگا، موجودہ مشکلات آپ کی تربیت میں معاون بنیں گی۔ اور اس سورہ میں اس بشارت کی صداقت کے چند نمایاں شواہد کا حوالہ دے کر تاکید کے ساتھ آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے، کہ اللہ کی راہ میں آپ کو جو دشواری بھی پیش آئیگی، اس کے پہلو بہ پہلو فیروزمندی بھی ہوگی۔ نبوت سے پہلے حضورؐ کو ان حالات سے سابقہ پیش نہ آیا تھا جن کا سامنا نبوت کے بعددعوت اسلامی کا آغاز ہی میں یکایک آپ کو کرنا پڑاتھا۔ یہ خود آپ کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم تھا جس کا کوئی اندازہ آپ کو قبل نبوت کی زندگی میں نہ تھا۔ اسلام کی تبلیغ آپ نے کیا شروع کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہی معاشرہ آپ کا دشمن ہوگیا، جس میں آپ پہلے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ وہی رشتہ دار، دوست ،اہل قبیلہ اور اہل محلہ آپ کو گالیاں دینے لگے، جو پہلے آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔ مکہ میں کوئی آپ کی بات سننے کا روادار نہ تھا۔ راہ چلتے آپ پر آوازے کسے جانے لگے۔ قدم قدم پر آپ کے سامنے مشکلات ہی مشکلات تھیں۔ حالات نہایت ہی دل شکن تھے، اسی بناپر آپ کو تسلی دینے کے لیے پہلے سورہ ضحی نازل کی گئی اور پھر اس سورہ کا نزول ہوا۔
تین نعمتوں کابیان
شرح صدر، وضع وزر اور رفع ذکر
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ کو بتایا ہے کہ ہم نے آپ کو تین بہت بڑی نعمتیں عطا کی ہیں۔ جن کی موجودگی میں کوئی وجہ نہیں کہ آپ دل شکستہ ہوں۔ ایک شرح صدر کی نعمت، دوسری یہ نعمت کہ آپ کے اوپر سے ہم نے وہ بھاری بوجھ اتاردیا جو نبوت سے پہلے آپ کی کمر توڑے ڈال رہاتھا۔ تیسری رفع ذکر کی نعمت جو آپ سے بڑھ کر تو درکنار آپ کے برابر بھی کسی بندے کو نہیں دی گئی !
(1) شرح صدر کی نعمت
یہ لفظ قرآن کریم میں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک تو اسلام قبول کرنے کی صلاحیت و توفیق کاعطا ہوجانا جیسا کہ سورہ انعام میں فرمایا{اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کاسینہ اسلام کیلئے کھول دیتاہے127/6)} اس سے مراد ہرقسم کے ذہنی خلجان اور تردد سے پاک ہوکراس بات پر پوری طرح مطمئن ہوجانا ہے کہ اسلام کاراستہ ہی برحق ہے ۔ دوسرا شرح صدر سے مراد یہ ہے کہ نبوت جیسے کارعظیم کابار سنبھالنے اورتن تنہا کفر کی ایک جابر و قاہر طاقت سے ٹکرلینے کی ہمت پیدا ہوجائے جیسا حضرت موسیٰ نے نبوت ملنے کے بعد دعا مانگی تھی {’’میرے رب میراسینہ میرے لیے کھول دے اور میراکام میرے لیے آسان کردے‘‘۔ نبی ﷺکے حالات کے تناظر میں یہ دونوں معنی ہی فٹ آتے ہیں۔کفروشرک کے اندھیاروں میں اسلام کی صداقت آپ پر پوری طرح عیاں ہوئی، اور اس نورربانی کو عام کرنے کے لیے آپ نے پوری قوت وصلاحیت کو بروئے کار لاکرجہالت کی تمام قوتوں کو دیکھتے ہی دیکھتے ملیامیٹ کرکے رکھ دیا اور کسی طاقت کو اپنے قدموں پر باقی نہیں رہنے دیا۔ گویا شرح صدر ایمان کاثمرہ ہے ، جس سے اللہ تعالیٰ پر اعتماد و توکل پیداہوتا ہے اور جوتمام قوت و عزم کاسرچشمہ ہے ۔
(2) وضع وزر کی نعمت
’’وزر‘‘ کے اصل معنی بوجھ کے ہیں۔ وہ کونسا’ وزر‘ تھا جس سے آپ ﷺ اتنا گراں بار ہورہے تھے اور جس سے آپ کو سبکسار کردیا گیا۔ اس کے دو دور ہیں ایک نبوت سے پہلے کادور… جس ماحول اور معاشرے میں آپ نے آنکھ کھولی تھی اس میں اخلاقی بیماریوں کے ساتھ ساتھ اعتقادی بیماریاں بھی وبا کی شکل اختیار کرچکی تھیں۔ توحید کی شمع بے نور ہوچکی تھی۔ حق کی یہ مظلومیت اور جہالت کایہ عروج دیکھ کرایک صالح فطرت آدمی کتنا کڑھتا ہے؟ اس گھٹن کااحساس وشدت اور درد و کرب آج بھی اہل حق کے لیے کوئی اجنبی نہیں ہے۔ اسی قسم کی گھٹن آپ محسوس کررہے تھے اور آپ کو یہ فکر گھلائے جارہی تھی کہ معاشرے کی یہ اخلاقی و مذہبی ناگفتہ بہ حالت بدلے گی بھی یانہیں؟اس کاتوڑ یوں ہوا کہ آپ پر ہدایت پوری تفصیلات کے ساتھ واضح کردی گئی بلکہ آپ کے سپرد خلق کی رہنمائی کردی گئی۔ گویا نبوت سے سرفراز کیے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتادیا کہ توحید وآخرت اور رسالت پرایمان ہی وہ شاہ کلید ہے جس میں انسانی زندگی کے ہربگاڑ کاحل موجود ہے۔ اس راز کو پاکر آپ کے دل کابوجھ ہلکا ہوگیا۔ اور اس کادوسرا دور اعلان نبوت کے بعد شروع ہوا۔ جب آپ کو تبلیغی احکام اور اس کے نتائج کی فکر نے گھُلاناشروع کردیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ آپ ہروقت اسی فکر میں ڈوبے رہتے۔ جس کااظہار قرآن میں کئی جگہ فرمایا کہ اے نبی تم ان کے کفرسے اتنے اپ سیٹ ہو کہ اپنے آپ کو نقصان پہنچا لوگے) الشعراء3/26) اسی لیے جگہ جگہ قرآن کریم نے آپ کو نہایت ہی شفقت آمیزتسلی بھی دی کہ آپ کاکام بس تبلیغ ہے، ہدایت پر لوگوں کو زبردستی لاناآپ کے فرائض منصبی میں شامل نہیں ہے …اور نہ ہی قرآن کریم کے نزول کامقصد آپ کو مشقت میں ڈالناہے۔ (جاری ہے)




.
تازہ ترین