چین پاکستان اقتصادی راہداری میں پاکستان کو آج کی ترقی یافتہ دنیا میں پہنچانے کی کافی صلاحیتیں موجود ہیں۔ آج قدرتی وسائل کے بجائے افرادی قوت سماجی و اقتصادی ترقی کا مضبوط زریعہ ہیں۔ CPEC کو محض چین سے پاکستان تجارتی سامان کی آمدورفت کی شاہراہ تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ یہ اس کی ایک اہم سرگرمی تصور کی جاسکتی ہے لیکن اس کی اصل توجہ کا مرکز صنعتی و علمی حلقے ہونے چاہئیں جن کی مدد سے اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی تیاری کی جا سکے۔ ہر ایک حلقہ چار اہم اجزاء پر مشتمل ہو۔ 1۔تکنیکی تربیتی مراکز ہوں جو کہ اپنے صنعتی حلقے کو اعلیٰ تکنیکی ماہرین فراہم کر سکیں۔ 2۔ جامعہ کے تحقیقی مراکز ہوں جو ان شعبوں میں تحقیق کریں جو ان کے صنعتی حلقے کی ضرورت کے مطابق ہو۔ 3۔نئی کمپنیاں شروع کرنے والوں کی حمایت کے لئے ٹیکنالوجی پارکس ہوں جہاں وہ صنعتی حلقے کے شعبے سے متعلق نئی مصنوعات کی تیاری کے مراحل طےکر سکیں۔ 4۔ایسی صنعتیں شامل ہوں جو کہ مخصوص شعبے میں اعلیٰ تکنیکی پیداوار کر سکیں اور پاکستان کی برآمدات کو تیزی سے بڑھا سکیں۔
ان علمی و صنعتی حلقوں کے لئے شعبوں کا چناؤ چینی حکومت کی مشاورت سے اور انتہائی احتیاط سے کیا جائے تاکہ برآمدات کو خاطر خواہ فروغ حاصل ہو سکے اور ہمارے یہ حلقے سرمایہ کاری کے لئے چینی نجی کمپنیوں کی توجہ اپنی جانب کرا سکیں۔ اس کے لئے ان کا ہدف کم از کم دس سال کے عرصے میں 1000ارب ڈالر کی برآمدات حاصل کرنا ہو۔ ایک علمی و صنعتی حلقہ حیاتی ٹیکنالوجی مصنوعات کے شعبے میں قائم کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا علمی و صنعتی حلقہ برقیات کے شعبے میں ہو سکتا ہے۔ اور تیسرا صنعتی و علمی حلقہ اعلیٰ قیمت زراعت پر اپنی توجہ مرکوز کر سکتا ہے۔(کپاس، گندم، چاول، اور دیگر خوردنی فصلوں کی زیادہ پیداواری اور اقسام تیار کی جاسکتی ہیں، کچھ مخصوص قیمتی ادویاتی نباتات یا تجارتی لحاظ سے اہم اجزاء علیحدہ کرنا، چاول، سبزیوں، پھولوں، کھمبیوں اور سجاوٹی درختوں کے ترمیم کردہ بیجوں کی پیداوار شامل ہیں) اسی طرح کے حلقے انجینئرنگ کے سامان کی تیاری، گاڑی سازی، دفاعی سامان اور اسی طرح کے دیگر شعبوں کے لئے قائم کئے جا سکتے ہیں۔
ایک اور اہمیت کاحامل شعبہ دھات سازی کا شعبہ ہے۔ مخصوص خصوصیات کے حامل خاص دھاتی مرکبات کی انجینئرنگ کا سامان اور گاڑیوں کے انجنوں اور دفاعی آلات کی تیاری میں بہت مانگ ہے۔ ایسا علمی و صنعتی حلقہ جو کہ جس میں خاص مواد جن میں خاص دھاتیں، مرکبات، پولی مر اور نینو مواد کی تیاری کی جاسکے وہ انتہائی اہم ہے۔ اسی سے مناسبت ایک اور علمی حلقہ قائم کیا جا سکتا ہے جو کہ معدنیات نکالنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہوئے نایاب معدنیات حاصل کرنے کی ٹیکنالوجی بھی استعمال کر سکے۔ یہ نایاب معدنیات برقیات اور دیگر صنعتوں کے لئے کافی کارآمد ہوتی ہیں۔ ہمارا صوبہ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے لیکن ساری قومی دولت ان معدنیات کے کم قیمت کے خام مال کی برآمد میں ضائع ہو رہی ہے۔ اس سلسلے کو بند کرنا چاہئے اور ان معدنیات کو صاف شکل دینے والی صنعتیں چین، روس، اور دیگر ممالک کے اشتراک سے قائم کی جانی چاہئیں تاکہ انتہائی مصفا اور اعلیٰ معیار کی معدنیات بنائے جا سکیں اور انہیں اچھی قیمتوں میں برآمد بھی کیا جاسکے۔ اسی طرح مصنوعات سازی کے صنعتی و علمی حلقے، کیمیا، ادویہ، ہوائی چکی، شمسی پینلوں اور دیگر قومی اہمیت کے شعبوں میں قائم کئے جا سکتے ہیں۔ہر حلقے میں موجود تکنیکی تربیت کے اداروں کا کردار یہ ہوگا کہ وہ اعلیٰ درجے کے ماہرین کو صنعتی ضروریات کے مطابق تربیت فراہم کریں۔ حب میں موجود جامعاتی تحقیقی مراکز اپنے حلقے سے متعلق شعبے کی اگلی نئی پیداوار پر تحقیق کریں۔ حلقے میں موجود ٹیکنالوجی پارکس نئی کمپنیوں کو تحقیقی مراکز میں ادا کئے گئے تحقیقی کاموں کی تجارتی پیداوار اور پیداواری صورت میں منتقل کرنے میں مدد دیں گے۔ ٹیکنالوجی پارکوں میں کمپنیوں کے لئے آسان قرضوں کی فراہمی، قانونی خدمات، مالی امداد اور ماہرین کے گروپ ہوں گے جو کہ ان نئی کمپنیوں کی ابتدا کے لئے رہنما کی حیثیت سے مدد کریں گے۔
ہر حلقے میں موجود یہ چاروں اہم ستون چینی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ پاکستان کی برآمدات کو فروغ حاصل ہو جو سنگاپور کی برآمدات (موجودہ بر آمدات 518 ارب ڈالر ہیں) تک اگلے دس سالوں میں پہنچ سکیں۔ ہر ایک علمی و صنعتی حلقے کو ’’مصنوعات پر مبنی نقطہ نظر‘‘ پر کام کرنا چاہئے جہاں برآمدات کے لئے جن مصنوعات کی مانگ ہے ان کی نشاندہی کی جائے اور صنعتوں کو صرف انہی مصنوعات کی تیاری کی منظوری دی جائے جن کی کاروباری منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہو۔
ان علمی حلقوں کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کو مختلف سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی۔ مثال کے طور پر حکومت کی جانب سے پندرہ سالہ ٹیکس کی چھوٹ فراہم کی جائے۔ جیساکہ میں نے اپنے دور وزارت برائے سائنس و ٹیکنالوجی میں آئی ٹی کی صنعت کے لئے منظوری دی تھی۔ یہ ایک اہم عنصر تھا جس کی وجہ سے پاکستان میں آئی ٹی کی صنعت نے بھرپور ترقی کی۔ 2001ء میں 3کروڑ ڈالر سالانہ کی قلیل برآمدات سے 2015ء میں یہ برآمدات تقریباً تین ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئیں۔ 10اگست 2015ء میں نیو یارک ٹائمز نے اپنے ایک مقالے میں یہ شائع کیا کہ پاکستان کا آزاد پروگرامروں میں شمار دنیا میں تیسرے نمبر پر ہوتا ہے جن کی سالانہ برآمدات 85کروڑ ڈالر سالانہ ہیں۔
ان حلقوں کے لئے ایک اور سہولت کا باعث ایک نظام یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر حلقے کی صنعتوں میں کام کرنے والے ملازمین کو بیرون ملک تربیت کے لئے بھیجنے کے لئے حکومت کی گرانٹ فراہم کی جائے تاکہ بیرون ملک اداروں سے خصوصی مہارت حاصل کر کے وہ اپنے ملک میں استعمال کر سکیں۔ تیسرا سہولت کا باعث طریقہ کار یہ ہو سکتا ہے کہ حلقے میں موجود تحقیق و ترقی کے مراکز کو حکومت کی جانب سے تحقیقی ساز و سامان اور تکنیکی افرادی قوت کی تربیت کے لئے گرانٹ فراہم کی جائے تاکہ نجی تحقیق و ترقی کے شعبے کو بھی سہولت فراہم کی جاسکے۔ حکومت کی جانب سے بیمہ اسکیم شروع کی جانی چاہئے تاکہ صنعت میں کسی بھی قسم کے نقصان سیاسی بدامنی، موت، اور زخمی ہونے کی صورت میں حلقے میں موجود صنعتوں کو مناسب معاوضہ دیا جا سکے۔CPECبذات خود علم پر مبنی معیشت میں انقلاب نہیں لاسکتا اس کے لئے ان پانچ اہم عناصر کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ پہلا اسکولوں اور کالجوں کا معیار تعلیم، کیونکہ ذہن کی تشکیل کم عمروں میں ہوتی ہے۔ ہمارے طلبہ میں تجزیاتی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیتیں ہونی چاہئیں۔ دوسرا اہم عنصر ہماری جامعات اور تحقیقی مراکز کا معیار ہے۔ اس وقت ہماری کسی بھی جامعہ کا دنیا کی اعلیٰ 700جامعات میں شمار نہیں ہے۔ تیسرا عنصر ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنا۔ ہمارے اسکول نہایت برے حال میں ہیں، انجینئرنگ جامعات تحقیق و ترقی میں کمزور ہیں۔ ان سب کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ چوتھا عنصر ہے جدت طرازی کا ماحولیاتی نظام۔ اس عنصر کے فروغ کے لئے ضرورری ہے کہ ہر جامعہ میں ٹیکنالوجی پارکس قائم کئے جائیں، نئی کمپنیوں کی رسائی کے لئے قرضوں کی سہولت فراہم کی جائے، مفت قانونی مشورے اور مالی خدمات فراہم کی جائیں اور بین الاقوامی پیٹنٹ کرانے کے لئے بھی فنڈ فراہم کئے جائیں۔ علم پر مبنی معیشت کے قیام کا آخری اور سب سے اہم عنصر ایک بصیرت انگیز، تکنیکی مہارت سے آراستہ حکومت کا قیام ہے جو ملکی ضروریات کو سمجھتی ہو اور ایک واضح سنگ میل پر عمل درآمد کر سکے۔ ہر وفاقی و صوبائی سیکریٹری اپنی وزارت کے شعبے کا بین الاقوامی ماہر ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ ہر وزارت میں ایک تھنک ٹینک ہونا چاہئے۔ سی پیک پاکستان کے لئے صرف اسی وقت کارگر ثابت ہوسکتا ہے جب پاکستان میں اس قسم کے ماہرین پر مشتمل حکومت قائم ہو۔
.