کراچی (افضل ندیم ڈوگر) سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد میں پیپلز پارٹی شمولیت اور پھر تردید کرنے والے سابق مشیر داخلہ سندھ عرفان اللہ مروت پر ان کے دور میں پیپلز پارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوششوں، کارکنوں پر مظالم اور وینا حیات کیس میں ملوث ہونے ہی کے الزامات نہیں بلکہ شہید بے نظیر بھٹو نے اپنے قتل کی سازش کا سنگین الزام بھی عرفان اللہ مروت پر عائد کیا تھا۔ سال 1991 میں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کا پہلا دور تھا، جب جام صادق علی وزیر اعلیٰ سندھ اور اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے داماد عرفان اللہ مروت سندھ کے مشیر داخلہ تھے۔ اس عرصے میں الذوالفقار کے نام پر سندھ بھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف غیرمعمولی آپریشن کیا گیا تھا۔ پارٹی کارکنوں کی اندھا دھند گرفتاریاں کی گئیں اور کارکنوں کو مشکوک پولیس مقابلوں میں ہلاک کیا گیا۔ یہی وہ دن تھے جب پی ایس ایف کی سرگرم کارکنوں شہلا رضا موجود اسپیکر سندھ اسمبلی اور راحیلہ ٹوانہ سابق رکن سندھ اسمبلی کو اس وقت کے ڈی آئی جی پولیس سمیع اللہ مروت کے ذریعے گرفتار کرا کر بدنام زمانہ تفتیشی مرکز سی آئی اے سینٹر میں قید رکھا گیا۔ ان دنوں 2 دسمبر 1991 کو بے نظیر بھٹو نے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کو تحریر کیے گئے خط میں اپنے قتل سازشوں الزام عائد کیا تھا۔ خط کے مطابق اس سازش میں اس وقت کے سندھ کے وزیراعلیٰ جام صادق علی اور اُن کے مشیر داخلہ عرفان اللہ مروت پر براہِ راست قتل کی سازش کرنے کا الزام لگایا تھا اور بے نظیر بھٹو نے خط میں صدر اسحاق خان کو مخاطب کرتے ہوئے دونوں رہنماوٴں کو باز رکھنے کا کہا تھا، بصورتِ دیگر بے نظیر بھٹو نے سابق صدر پر الزام لگایا تھا کہ وہ بھی ان کے ساتھ برابر کے شریک ہونگے۔ بے نظیر بھٹو نے اس وقت بری، فضائی اور بحریہ کے سربراہوں، سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے تمام ججوں اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو بھی ڈاک کے ذریعے یہ خط ارسال کیے اور سکیورٹی خدشات ظاہر کرکے دبئی روانہ ہوگئی تھیں۔ خط میں بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ وہ اور ان کا خاندان، عزیز واقارب اور پیپلز پارٹی کے حامی عدم تحفظ کا شکار ہیں، وزیراعلیٰ جام صادق علی اور سابق صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے داماد عرفان اللہ مروت پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے خط میں پیپلز پارٹی کے رہنماوٴں، حامیوں اور وکلاء پر تسلسل کے ساتھ قاتلانہ حملوں کی تفصیلات بھی تحریر کی تھیں۔ صدر کو کہا تھا کہ اُن کے داماد، وزیراعلیٰ جام صادق کے ایماء پر سرعام اُنہیں، اُن کی والدہ نصرت بھٹو کو جان سے مار دینے اور تشدد کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ دو ستمبر انیس سو اکیانوے کی ایک اخباری اطلاع کے ذریعے اُنہیں معلوم ہوا کہ اُن کے داماد عرفان اللہ مروت، میرے شوہر (آصف علی زرداری) کو بھی قتل کرنا چاہتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اخبارات میں ان لوگوں نے بیان دے کر مجھ (بے نظیر بھٹو) پر اپنے شوہر کو قتل کرانے کی سازش کا بھی الزام لگایا۔ بے نظیر بھٹو نے خط میں مزید کہا کہ ایک منظم اور سوچی سمجھی سازش کے تحت حملے اور فائرنگ کے واقعات جاری ہیں۔ اگر اس کے نتیجے میں اُنہیں کسی قسم کا نقصان پہنچا تو یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوں گی کہ یہ سب کچھ اُن کی مرضی اور ہدایات پر کیا جارہا ہے۔