• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ دنیا ظالم ہوگئی ہے، کچھ ہم ظلم دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ نہ ہوئے ہوتے تو انسان پر انسان کی اتنی بیداد دیکھتے دیکھتے کبھی کے مر گئے ہوتے۔ اس ٹیلی وژن نے طرح طرح کے منظر دکھانے کی جو ریت ڈالی ہے اس نے ہماری آنکھوں پر ایک پردہ سا ڈال دیا ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو،پاکستان میں جب پہلی بار امریکی ٹیلی وژن دکھایا گیا تو اس پر ایک عجیب و غریب سنسر بٹھایا گیا۔ ہوتا یہ تھا کہ جوں ہی کوئی قابل اعتراض یا اخلاق کو خراب کرنے والا کوئی منظر دکھایا جاتا، ٹی وی کے پردے پر ایک جالی سی آجاتی تھی۔ بے شمار لوگ اس پر پیر پٹخ کر رہ جاتے۔ پھر پتہ چلا کہ اگرآپ اُس لمحے اپنی آنکھوں کے آگے کوئی باریک پردہ تان لیں تو وہی قابل اعتراض منظر صاف نظر آنے لگتا تھا۔ اب وقت بدل گیا ہے۔ اب اخلاق بگاڑنے والے نہیں، روح کو جھلسا دینے والے منظر دیکھنے میں آتے ہیں جس کے آگے باریک پردہ نہیں ، موٹا لٹھاتانا جائے، اتنا ہی موٹا جتنا کفن میں ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں ہم نے پھر ایک تکلیف دہ دستاویزی فلم دیکھی جو انگلستان اور بھارت میں بنائی گئی تھی۔ یہ کوئی مشترک فلم سازی نہیں بلکہ ایک مشترک دکھ کی کہانی تھی جس میں دھتکاری اور ٹھکرائی ہوئی عورت کی کتھا بیان کی گئی تھی۔ ہوتا یہ ہے کہ یہاں مغرب کی فضاؤں میں پل کر مشٹنڈے ہوجانے والوں کو جو مستی سوجھتی ہے تو وہ بھارت جاتے ہیں اور شادیاں رچاتے ہیں۔ میں نے بڑی عمر ہندوؤں کے درمیان گزاری ہے ، مجھے نہیں معلوم تھا کہ ان کے ہاں جہیز لڑکی کو نہیں لڑکے کو دیا جاتا ہے۔ اور اگر کہیں وہ خوش شکل، کھاتا کماتا ہو تو اس کی چوکھٹ پر لڑکی والوں کو اور زیادہ دولت نچھاور کرنی پڑتی ہے۔ پہلے تو وہ میکے سے خود لدی پھندی آتی ہے مگر لین دین وہاں ختم نہیں ہو جاتا۔ لڑکے کے مطالبے اس کے بعد بھی جاری رہتے ہیں اور وہ بھی اس شان سے مطالبے ہر بار زیادہ گراں چیزوں کے ہونے لگتے ہیں۔ ہاں یہ میں نے بہت سنا اور دیکھا تھا کہ لڑکی کے گھر سے مزدور لوگ جو سازوسامان سروں پر لاد کر لائے ہیں وہ اگر لڑکے کو اور اس سے بڑھ کر ساس اور نندوں کو نہیں بھایا تو کسی روز مٹی کے تیل کا چولہا پھٹ جاتا ہے اور بہو بیگم جیتے جی اپنی چتا کی نذر ہو جاتی ہیں۔
تو اس بار کا منظر زیادہ بھیانک نکلا۔ وہ پلے پلائے کھائے پئے صاحب زادے بھارت جاتے ہیں اور شادی رچاتے ہیں۔ اس کے بعد پہلے تو جہیز بٹورتے ہیں، پھر اور اور کے مطالبے شروع ہوتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ ان تلوں میں تیل نہیں رہا تو دولہامیاں پچھلے دروازے سے نکل کر سیدھے ہوائی اڈے پہنچتے ہیں اور خود بھی ہوا ہوجاتے ہیں۔ چند ایک تو جاتے ہوئے اس دکھیا ری سے کہہ دیتے ہیں کہ مجھے تیری ضرورت نہیں اور میں تجھے چھوڑ رہا ہوں، تو جہاںچاہے اپنا ٹھکانا کر لے۔ ہاں جاتے جاتے ایک کام ضرور کرتے ہیں، بیوی کو حاملہ کرجاتے ہیں اور کہہ جاتے ہیں کہ بچے کا جو حشر چاہو کرتی رہنا۔ بھارت میں یہ لعنت بڑھتی جارہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پورے ملک میں پچاس ہزار سے زیادہ ایسی عورتیں ہیں جنہیں ان کے شوہر چھوڑ کر، بلکہ یوں کہئے کہ ٹھکراکرفرار ہوگئے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر عورتوں کی فلاح و بہبود کی کئی تنظیموں نے ان کی مدد کرنے کی ٹھانی ہے۔ کچھ روز ہوئے چندی گڑھ میں ایسی عورتوں کا اجلاس بھی ہوا جس میں دکھ بھری اتنی داستانیں سننے میں آئیں کہ ہر ایک رو دیا۔ ان تنظیموں نے مغربی ملکوں میں بھی کام شروع کردیا ہے او ر یہاں کی عورتیں اپنی بھارتی بہنوں کی مدد کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔کئی ٹھکرائی ہوئی بیویاں اپنے نام نہاد شوہر کو ڈھونڈتی ہوئی یورپ آئی ہیں۔ مگر پوری دستاویزی فلم دیکھ کر یوںلگتا نہیں کہ ان مستانے درندوں کے دل موم ہوجائیں گے۔
یہ تو ہوئی اُن کی بات۔ عرض یہ ہے کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں۔جن دنوں وسطی یورپ میں بوسنیا اور کروشیا کے علاقے میں جنگ ہو رہی تھی اور ہزاروں فاقہ زدہ مسلمانوں کو بے دریغ مارا جا رہا تھا، مجاہدین کا ہاتھ بٹانے کے لئے ہمارے جوان بھی جوش جہاد میں مبتلا ہوکر وہاں جا پہنچے تھے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ وہاں انہیں بھی مستیاں سوجھیں اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ انہوں نے وہاں کی بھولی بھالی لڑکیوں سے شادیاں کرنی شروع کردیں۔ لڑکیوں کے ماں باپ اور بھائی بہن بھی خوشیاں منانے لگے۔ دولہامیاں نے اپنی خاطر داریاں کرائیں اور پھر شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر راتوں کو چوری چھپے بھاگنے لگے۔ پریشان حال لڑکیاں اور ان کے سراسیمہ ماں باپ اپنے داماد کو آوازیں دیتے رہ گئے مگر انہوں نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ اوپر سے یہ غضب کیا کہ منکوحہ کے بطن میں اپنی بدذاتی کی نشانی چھوڑ آئے۔ آج سرایئوو کی سڑکوں پر نہ جانے کتنے جانی پہچانی صورتوں والے جوان گھوم رہے ہوں گے جن سے کہا جاتا ہوگا کہ اپنے باپ کا نام پتہ نہ پوچھو۔
کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ سرحدکے اِدھر یا اُدھر، ہمارے معاشرے کی نگاہ میں عورت کوئی دو کوڑی کی مخلوق تصور کی جانے لگی ہے۔ اس کا بڑا مظاہرہ ہماری روز کی خبروں میں متواتر ہورہا ہے۔ابھی کچھ لوگ پکڑے گئے ہیں جو عورتوں کو فروخت کرنے کے دھندے میں مصروف تھے۔یقین ہے عورت کی تذلیل کا بڑا مظاہرہ ٹیلی وژن کے ڈراموںمیں ہوتا ہوگا جو میں نہیں دیکھتا البتہ ان ڈراموں کے پروموز یعنی اشتہاروں میں نظر آتا ہے۔ میں نے عورتوں کو جتنے تھپڑ، طمانچے، دھکے کھانے اور جھونٹے پکڑ کر گھر سے نکالے جانے کے منظر ان ڈراموں میں دیکھے ہیں ،میں ہی جانتا ہوں اور سوچتا ہوںکیا آنکھوں کے آگے موٹے لٹھے کی چادر تان لوں۔ خیال آتا ہے کہ کیاعورت اتنی گری پڑی مخلوق ہے او رکیا وہ لوگ حق پر تھے جو بیٹی پیدا ہوتے ہی اسے گاڑ دیا کرتے تھے اور وہ بھی زندہ؟
کیا ندائے سروش بیکار گئی۔

.
تازہ ترین