اسلام آباد (انصار عباسی) اگرچہ حسین حقانی امریکی انٹیلی جنس ایجنٹس کو پاکستان میں سہولتیں دینے کے کردار کے حوالے سے ایبٹ آباد کمیشن اور میڈیا کی توجہ کا مرکز رہے ہیں لیکن اپنے فوجی دور میں ملکی سالمیت کی قیمت پر امریکا کو اس سے بھی زیادہ خوش کر نے پر کسی نے جنرل (ر) پرویز مشرف سے ایک سوال تک نہیں پوچھا۔ بدھ کو حسین حقانی کے کردار کے حوالے سے پارلیمنٹ میں بحث ہوئی۔ اس کے علاوہ نواز لیگ کے ایک سینئر رہنما ظفر علی شاہ نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی جس میں انہوں نے آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی اور حسین حقانی کے کورٹ مارشل کی استدعا کی۔ یہ تمام پیشرفت حسین حقانی کے حالیہ اعتراف کے بعد سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سویلین حکومت کی منظوری کے ساتھ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو علم میں لائے بغیر انہوں نے سی آئی اے کے ایجنٹس کے پاکستان میں داخل ہونے میں مدد کی۔ تاہم، یہ بہت ہی دلچسپ بات ہے کہ اچانک ہی سب حسین حقانی کے کردار پر تو بحث کر رہے ہیں لیکن اس بات کا کوئی ذکر ہی نہیں کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے امریکیوں کو خوش کرنے کیلئے کس سنگین انداز سے پاکستان کی سالمیت پر سمجھوتا کیا۔ تاہم، صورتحال کا کریڈٹ سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور ان کے اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے دور میں ملک سے سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ایجنٹس کا صفایا کیا، یہ لوگ پرویز مشرف کے دور میں اور پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں حسین حقانی کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ جس وقت حسین حقانی نے خود اعتراف کیا کہ انہوں نے امریکیوں کے مفادات کا تحفظ کیا اسی وقت پرویز مشرف کے حوالے سے ان کے چیف آف اسٹاف نے دی نیوز کو 2009ء میں بتایا تھا کہ پرویز مشرف نے اپنے دور میں نہ صرف امریکی ڈرون طیاروں کو انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کیلئے پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی بلکہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں، سی آئی اے اور ایف بی آئی، کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنے ایجنٹ بھرتی کرنے کی بھی اجازت دی۔ حتیٰ کہ ایک امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی کچھ سال قبل یہ رپورٹ جاری کی تھی کہ ایف بی آئی نے سابق پاکستانی فوجی افسران اور دیگر کا ایک گروپ تشکیل دیا ہے جسے ’’اسپائیڈر گروپ‘‘ کا نام دیا گیا ہے جس کا کام افغان سرحد کے قریب پاکستانی قبائلی علاقوں میں چھپے القاعدہ رہنمائوں اور مقامی طالبان کیخلاف کارروائی کرنا ہے۔ واشنگٹن کے ایک قانون نافذ کرنے والے عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی اخبار نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایف بی آئی کی جانب سے کیا جانے والا یہ اقدام امریکی ایجنٹس تک معلومات کی پرسکون انداز سے رسائی کیلئے تھا کیونکہ یہ لوگ پہلے آئی ایس آئی کے ماتحت کچھ پابندیوں کے تحت کام کرتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق، اسپائیڈر گروپ سے کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان کی قبائلی پٹی میں مقامی ایجنٹس بھرتی کرے، جہاں سیکڑوں ’’مطلوب‘‘ دہشت گرد چھپے بیٹھے تھے۔ رپورٹ کے مطابق، اسپائیڈر گروپ کے ارکان میں مسلم اور مسیحی ریٹائرڈ فوجی اور انٹیلی جنس افسران شامل تھے جنہیں ایف بی آئی نے تربیت اور ساز و سامان فراہم کیا تھا۔ پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کے دور میں اس وقت کے آرمی چیف اور اس وقت کے آئی ایس آئی چیف کی مداخلت کے بعد 9/11 کے بعد امریکی حکام اور سفارت کاروں کو حاصل کھلی اور ناقابل یقین چھوٹ اکتوبر 2009ء میں ختم کر دی گئی۔ اس سہولت میں بینظیر بھٹو ایئرپورٹ اسلام آباد پر آمد کے موقع پر سامان اور آنے اور جانے پر کوئی پابندی نہ ہونے کی چھوٹ شامل تھی۔ بینظیر بھٹو ایئرپورٹ کے گیمن گیٹ، جو بنیادی طور پر کھانے پینے کا سامان لانے لیجانے اور کیٹرنگ سروسز کیلئے مختص تھا اور اس کا امیگریشن اور کسٹم چیک کے بغیر ایئرپورٹ کے براہِ راست باہر سے راستہ تھا، کو امریکی حکام اور اقوام متحدہ کے حکام کیلئے مختص کر دیا گیا۔ جیسا کہ اخبار نے پہلے بتایا تھا کہ یہ خصوصی سہولت امریکیوں کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر بنا کسی روک ٹوک کے آنے اور جانے کیلئے دی گئی تھی۔ اس سہولت کا بھرپور انداز سے غلط استعمال کیا گیا اور اس بات کی اطلاعات بھی تھیں کہ غیر مجاز انداز سے اور بغیر بتائے حساس ساز و سامان لایا گیا جس میں ہتھیار بھی شامل تھے۔ یہ حقیقت سامنے آنے کے بعد پاکستانی حکام کیلئے خطرے کی گھنٹیاں بج گئیں اور وہ یہ سہولت ختم کرنے پر مجبور ہوئے۔ لیکن اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا تھا۔ اس معاملے پر 2009ء میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کا ایک حکم نامہ جاری ہوا تھا جس میں اعتراف کیا گیا تھا کہ کسٹم اور امیگریشن حکام کے پاس ایسے انتطامات نہیں تھے کہ وہ غیر ملکیوں وغیرہ کی نقل و حرکت اور سامان کی نگرانی کر سکے۔ دستاویز میں بتایا گیا تھا کہ اس گیٹ کے طیاروں سے جڑے سامان، عملہ اور ذاتی لگیج بھی گزرتا ہے۔ چیکنگ کے دوران، امریکی گاڑیوں اور ان کے سامان کو گیمن گیٹ پر تعینات اے ایس ایس اسٹاف کی جانب سے مناسب انداز سے چیک نہیں کیا جاتا۔ اسی دستاویز میں مزید کہا گیا تھا کہ اس صورتحال کے تناظر میں غیر ملکیوں کی جانب سے گیمن گیٹ کے استعمال پر فوراً پابندی عائد کی جائے کیونکہ اس کے نتیجے میں سنگین سیکورٹی رسک پیدا ہو رہا ہے۔ کیانی پاشا دور میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ تربیت کاروں کے بھیس میں امریکی جاسوس پاکستان میں گھس گئے ہیں اور مختلف تنصیبات وغیرہ جیسا کہ سہالہ پولیس ٹریننگ سینٹر میں خدمات انجام دے رہیں۔ یہ وہ تنصیبات ہیں جو ملک کے جوہری ٹھکانوں کے قریب ہیں۔