جناب نعیم صدیقی مرحوم کا شمار جماعت اسلامی کے بانی ارکان اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے ابتدائی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ آپ اعلیٰ پائے کے ادیب اور نہایت ہی خوش کلام شاعرتھے۔ نعیم صدیقی چاہتے تو اپنے قلم سے فلمی کہانیاں اور رومانی افسانے لکھ کر بہت کچھ شہرت اور دولت کما سکتے تھے مگر انہوں نے اپنے قلم کی جولانیوں کے لئے ایک نظریاتی جولاں گاہ کا انتخاب کیا۔ زبان و قلم کی سب سے بڑی سعادت یہی ہے کہ یہ سیرت النبی ﷺ کے اعلان و اظہار کا ذریعہ قرار پائیں اور یہی سعادت جناب نعیم صدیقی کے حصے میں آئی۔ انہوں نے ’’محسن انسانیت‘‘ جیسی جامع کتاب لکھ کر صرف مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت پر احسان کیا ہے۔ نعیم صدیقی کے اپنے الفاظ میں حضور ﷺکی زندگی ایک بین الانسانی مشن کی داستان ہے وہ قرآن کے ابدی اصولوں کی تفسیر ہے جسے عمل کی زبان میں مرتب کیا گیا ہے۔ اسی بات کو اپنے دور کے بے مثال شعلہ بیان خطیب شورش کاشمیری نے یوں بیان کیا تھا کہ ’’ایک قرآن وہ تھا جو 23 برس تک شب و روز کی مختلف ساعتوںمیں قلب مصطفیٰ ﷺپر نازل ہوتا رہا اور دوسرا وہ قرآن مجسم تھا جو 13برس تک مکے اور طائف کی گلیوں میں پتھر کھاتا، گالیاں سنتا اور دعائیں دیتا رہا‘‘ جناب نعیم صدیقی کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے لئے حب رسولﷺ اور نظریہ پاکستان ایک نظریاتی اثاثہ اور خاندانی ورثہ ہے۔
جسٹس صدیقی 2011 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بننے سے پہلے راولپنڈی میں 23برس تک وکالت کرتے رہے۔ اس وکالت سے انہوں نے نیک نامی، رزق حلال اور سچی عزت کمائی۔ انہی جسٹس صدیقی کی عدالت میں جب توہین رسالتؐ کے حوالے سے ایک مقدمہ پیش ہوا تو انہوں نے اس کے بارے میں دوران سماعت جو ریمارکس دیئے اس سے اندازہ ہوا کہ وہ مومن صادق اور سچے عاشق رسولؐ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شان مصطفیٰ ﷺ میں گستاخی کرنے سے بڑھ کر اور کیا دہشت گردی ہوگی فاضل جج اس حوالے سے بعض احکامات لکھواتے ہوئے رو پڑے۔ ان آنسوئوں پر طنز کرتے ہوئے محترمہ عاصمہ جہانگیر نے انہیں خطیب، پیش امام اور مؤذن جیسے القابات سے نوازا۔ ہمارا خیال تو یہی ہے کہ عاصمہ جہانگیر بھی عشق مصطفیٰ ﷺجیسی دولت سے مالا مال معاشرے کا ایک حصہ ہیں اور شان اقدس میں کی جانے والی گستاخی سے ان کے دلی اور ایمانی جذبات بھی مجروح ہوتے ہوں گے۔ ایک مسلمان کے لئے زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ دو آنسو ہیں۔ ایک خوف خدا کے نتیجے میں ٹپک جانے والا آنسو اور دوسرا شان مصطفیٰﷺ کی عظمت و رفعت کے بارے میں سوچ کر آنکھوں سے چھلک جانے والا آنسو۔ اسی لئے تو ڈاکٹر خورشید رضوی نے تمام مسلمانوں کے قلبی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے؎
شان انؐ کی سوچئے اور سوچ میں کھو جائیے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جائیے
سونپ دیجئے دیدۂ تر کو زباں کی حسرتیں
اور اس عالم میں جتنا بن پڑے رو جائیے
عاصمہ جہانگیر اور ان کے فکری قبیلے کے دوسرے خواتین و حضرات اگر اپنی کتابوں کی طرف رغبت محسوس نہیں کرتے تو وہ موجودہ دور کی مشہور مغربی مصنفہ کیرن آرمسٹرانگ کی کتاب "Muhammad:A Biography of Prophet"پڑھ کر دیکھیں کہ غیروں نے بھی کس طر ح شان مصطفیٰ ﷺ کی عظمت کو دل و جان سے تسلیم کیا ہے
کیرن آرمسٹرانگ نے 21ویں صدی کے تناظر میں رسولؐ خدا کو پیغمبر امن قرار دیا ہے۔ کیرن کے مطابق ایک رہنما کی حیثیت سے حضرت محمد ﷺکی حیات نہ صرف مسلمانوں بلکہ اہل مغرب کے لئے بھی اہم اسباق رکھتی ہے۔
آئیے اب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے تازہ ترین ریمارکس کی طرف جو انہوں نے گستاخانہ مواد کے خلاف کیس کی سوموار کو ہونے والی سماعت کے دوران دیئے۔ انہوں نے کہا کہ توہین رسالتؐ کا مرتکب کسی صورت نہیں بچ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ خبر بیچنے کے لئے ناموس بیچنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ گستاخانہ مواد کے خلاف جسٹس صدیقی کا موقف بعض جدت پسند حلقوں کے نزدیک جذباتی ہے جبکہ یہ موقف ایمانی و اسلامی جذبات کی حقیقی ترجمانی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ انہی عناصر نے اس موقع پر سپریم جوڈیشل کونسل میں عام نوعیت کے بعض مقدمات کے حوالے سے جسٹس صدیقی کے خلاف زیر سماعت ریفرنس کی آڑ میں فاضل جج کی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر کردار کشی کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ بادی النظر میں معمولی نوعیت کے ان مقدمات کے حوالے سے جو الزامات عائد کئے گئے ہیں وہ نہایت بودے اور بدنیتی پر مبنی دکھائی دیتے ہیں۔ مگر چونکہ یہ ریفرنس زیر سماعت ہے اس لئے ہم اس پر مزید تبصرہ نہیں کرتے۔ ایک مقدمہ سرکاری گھر میں سی ڈی اے کے ذریعے تزئین و مرمت کے بارے میں ہے جبکہ دوسرا سی ڈی اے کے کسی حقدار ملازم کو پلاٹ دلوانے اور تیسرا سی ڈی اے کے ایک عیسائی ملازم کے برین ہیمرج کے بارے میں احکامات جاری کرنے کے بارے میں ہے۔ جن لوگوں کے مفادات کو گزند پہنچتی ہے وہ ایسے مقدمات دائر کرتے رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل میں جب کسی جج یا جسٹس کے خلاف ریفرنس آتا ہے تو بالعموم جج صاحبان الزامات و مقدمات کا سامنا کرنے کی بجائے ریٹائر ہونے اور اپنی پنشن اور مراعات بچانے کو ترجیح دیتے ہیں جیسے کہ ایک اور ریفرنس میں جسٹس مظہر اقبال سدھو نے عہدے سے استعفیٰ دینے اور پنشن لینے کو ترجیح دی ہے۔ مگر اس کے برعکس جسٹس صدیقی نے علی الاعلان کہا کہ وہ ریفرنس کا سامنا کریں گے اور اپنی صفائی ثابت کریں گے۔ انہوں نے یہ استدعا کی ہے کہ ان کے خلاف ریفرنس کی سماعت بند کمرے میں نہیں کھلی عدالت میں ہونی چاہئے۔ ان کی خواہش تو یہ ہے کہ ریفرنس کی کارروائی قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کی جائے تاکہ ساری دنیا دیکھے کہ جسٹس کٹہرے میں کھڑا اپنی صفائی پیش کررہا ہے۔
اب تو وزیراعظم نے وزیرداخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ویب سائٹوں سے گستاخانہ مواد کو ہٹانے کے لئے فوری اقدامات کریں۔ تاہم جسٹس صدیقی کے اس حکم کی تعمیل بھی حکومت کے ذمہ ہے جو انہوں نے ڈی جی ایف آئی کو دیا کہ وہ مبینہ بلاگرز کے لاپتہ ہونے، دوبارہ منظر عام پر آنے اور ملک سے باہر جانے کے بارے میں رپورٹ پیش کریں۔ دوسرے مذاہب کے بارے میں جتنی رواداری اور فراخدلی اسلام میں ہے کسی اور مذہب میں نہیں۔ تاہم جناب وزیراعظم ’’ترقی پسندی‘‘ کے جوش اور گل بوسی کے شوق میں کانٹوں پر زباں بھی رکھ دیتے ہیں۔ اس سے تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔موصوف اس طرح کی اصطلاحات کن اندرونی و بیرونی عناصر کو خوش کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ میاں صاحب دین و عقائد کے بارے میں لب کشائی سے پہلے کم از کم اپنے دوست مولانا فضل الرحمٰن سے مشورہ ضرور کر لیا کریں۔ دلچسپ حکومت ہے۔ پنجاب کا پاکیزہ خیال وزیر تعلیم رضا گیلانی حجاب کی تلقین و تحسین کرتا ہے تو وزیر قانون رانا ثناء اللہ فوراً میدان میں کود پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت کی کوئی حجاب پالیسی نہیںگویا بے حجابی حکومت کی پالیسی ہے۔ وزیراعظم کو ادراک ہونا چاہئے کہ ناموس رسالتؐ پر یہ قوم معمولی ساکمپرومائز بھی نہیں کرتی۔ ناموس رسالتؐ کے حوالے سے پاکستانی قوم بلکہ امت اسلامیہ کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے تاریخی فیصلے کا شدت سے انتظار ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس صدیقی کا مطالبہ منظور کرتے ہوئے ان کا اوپن ٹرائل کرنا چاہئے تاکہ عاشق رسولؐ کی دیانت و امانت روز روشن کی طرح واضح ہوسکے۔
.