• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی بیوروکریسی کا اس سے بڑا بحران نہیں آیا۔800سول افسران کی ترقیاں خطرے میں پڑ چکی ہیں۔پہلی بار ہوا ہے کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ 2015,2014اور 2016کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا ہے۔گزشتہ کالم میں تو صرف حال ہی میں ہونے والی ترقیوں پر روشنی ڈالی تھی مگر دو روز قبل سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد 2015کے سلیکشن بورڈمیں ترقی پانے والے افسران کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ کالم لکھنے کے دوران قومی نشریاتی اداروں پر چلنے والی ایک اور خبر نے بھی ہلا کر رکھ دیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستا ن نے ایف بی آر افسران کے کیس میں ستمبر2016میں منعقد ہونے والے گریڈ22کے سلیکشن بورڈ کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے۔ایسی صورتحا ل میں پورے ملک کی بیوروکریسی ہل کر رہ گئی ہے۔اگر عدالتی احکاما ت پر نظر ثانی کی درخواست کے بجائے من و عن عمل کرلیا گیا تو متاثرین کی قطار لگ جائے گی۔کیا ہوگا ان افسران کا جو گریڈ21پر براجمان ہو کر کئی کئی ماہ کی تنخواہیں لے چکے ہیں۔کئی اہم انتظامی فیصلے ان عہدوں پر بیٹھ کر کرچکے ہیں۔ملک کی70سالہ تاریخ میں بیوروکریسی کے لئے اس سے بڑی آزمائش کبھی نہیں دیکھی۔
قارئین کی آسانی کے لئے عرض کرتا چلوں کہ 2015 میں ایک سینٹرل سلیکشن بورڈ منعقد ہوا تھا۔جس میں 10فروری 2014کے آفس میمورینڈم کے مطابق ترقیاں کی گئی تھیں۔بورڈ نے پہلی بار ایمانداری کے5نمبروں کو معیار بنا کر ترقیوں کی سفارش کی تھی۔جس پرمتاثرہ بیوروکریٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی ۔عدالت نے تمام فریقین کو سننے کے بعد ایک فیصلہ جاری کیا تھا۔جس کا لب لباب یہ تھا۔" 10فروری 2014کے آفس میمو رینڈم کی بنیاد پر ہونے والے سینٹرل سلیکشن بورڈ کی کی تمام کارروائی کو کالعدم قراردیا جاتا ہے،میمورینڈم کی بنیاد پر سینٹرل سلیکشن بورڈ افسران کی ترقیاں ملتوی یا پھر سپرسیڈ نہیں کرسکتا۔عدالت کے سامنے آنے والے مشاہدات کی روشنی میں سینٹرل سلیکشن بورڈ کی طرف سے 5اضافی نمبروں کے اوور رائڈنگ افیکٹ کو ایک طرف رکھ کر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نیا فارمولا بنائے۔جبکہ گریڈ21میں ترقی کے لئے 75نمبر درکار ہوتے ہیں۔جو افسر 75نمبر لے اسے ترقی دی جائے۔اس کے علاوہ جن افسران کو سپرسیڈ کیا جائے گا سی ایس بی اس پر تحریری وجوہات دے گا،تاکہ متاثرہ بیوروکریٹ سینٹرل سلیکشن بورڈ کے تحفظات کی روشنی میں آئندہ بہتر کارکردگی دکھاسکے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے بعد حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔جس پر ایک سال سے زائد عرصہ سماعت کے بعد اب فیصلہ سامنے آیا ہے۔جس میں حکومتی اپیل کو خارج کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا ہے۔اب اس سے حالیہ سلیکشن بورڈ تو ایک طرف بلکہ 2015کا سلیکشن بورڈ بھی متاثر ہوگیا ہے۔اگر حکومت نے عدالتی فیصلے کے بعد نظر ثانی کی درخواست دائر نہ کی تو متاثرین کی لائن لگ جائے گی۔جن میںرضوان میمن اور آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ،ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر، چیف سیکرٹری بلوچستان،ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ،ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب ،ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ ،ایڈیشنل چیف سیکرٹر ی کے پی اور دیگر بے شمار افسر۔اس میں دو باتیں بہت اہم ہیں۔بالا افسران میں سے اکثریت کی رائے ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد بھی ہماری ترقیاں متاثر نہیں ہونگی۔کیونکہ جن افسران کو ترقی نہیں دی گئی۔ان کی جگہ پر کسی کو پروموٹ نہیں کیا گیا بلکہ ان کی جگہ خالی پڑی ہوئی ہے۔اس لئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نیا فارمولا بنا کر فوری سلیکشن بورڈ کرسکتا ہے۔جس میں متاثرہ افسران کی ترقیوں پر غور کیا جاسکتا ہے۔افسران کی رائے ہے کہ حالیہ عدالتی فیصلے سے صرف 2016کا سینٹرل سلیکشن بورڈ متاثر ہوگا۔کیونکہ اس میں 2015کی خالی سیٹوں پر ترقیاں دی گئی ہیں۔بہرحال ہر افسر کی اپنی رائے ہے مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ماضی میں سول افسران نے کبھی اس قسم کی صورتحال کا سامنا نہیں کیا۔اب اطلاعات آرہی ہیں کہ گریڈ22کے سلیکشن بورڈ کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ایسے میں انتہائی تشویشناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد جب وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو معاملے کو اتنا طول کیوں دیا گیا۔اٹارنی جنرل اور وفاقی حکومت کے قانونی مشیران کی ذمہ داری تھی کہ وہ عدالت کے نوٹس میں لاتے کہ اس کیس کا جلدی فیصلہ ہونا کتنا ضروری ہے۔انتظامی و مالی پہلوؤں کے بارے میں تفصیل سے بتایا جاتا۔اگر اٹارنی جنرل اتنے اہل نہیں تھے تو سروسز کا سب سے بہتر وکیل کیا جاتا۔مگر بدقسمتی سے کسی بھی سطح پر موثر قانونی جنگ نہیں لڑی گئی۔اب جب عدالت نے فیصلہ دے دیا ہے تو وزیراعظم ہاؤس جاکر رونا روتے ہیں کہ ہمارا کیا قصور ہے۔جب عدالت کو حقائق نہیںبتائیں گے تو پھر عدالت نے تو میرٹ پر ہی فیصلہ کرنا ہے۔اب یہی قانونی مشیران کہتے پھر رہے ہیں کہ اس فیصلے پر من و عن عمل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔سروس کا پورا ڈھانچہ بگڑ جائے گا۔جو افسران ترقی پانے کے بعد لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور پلاٹ حاصل کرچکے ہیں،ان کا کیا ہوگا؟انتظامی فیصلوں کی حیثیت کیا رہ جائے گی۔کاش یہی سب کچھ عدالت میں بتایا گیا ہوتا ،یا پھر اپنے خلاف ہی سہی ایک ماہ میں فیصلہ کروالیا گیا ہوتا تو شاید اتنے برے اثرات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں فوج کے طرز پر سول سروس میں ترقیوں کے حوالے سے اصلاحات کرنا ہونگی۔سویلین بالادستی کا بہت بڑا داعی ہوں مگر ایک بات ماننا پڑے گی کہ فوج سا شفاف ترقیوں کا نظام شاید ہی کہیں ہو۔کوئی افسر چیف کی مونچھ کا بال ہی کیوں نہ ہو مگر اس کا دامن صاف نہ ہو تو وہ کبھی پروموٹ نہیں ہوسکتا۔جنرل(ر) مصطفی کا تاریخی واقعہ ہے۔ان کے بچوں پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام تھا۔قابلیت کے معیار پر پورا اترنے کے باوجود وہ لیفٹیننٹ جنرل پروموٹ نہیں ہوسکے تھے۔ لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی کہ یہ کس اصول میں لکھا ہے کہ ہر کسی نے پروموٹ ہونا ہے۔اب ہمیں اس نظام کو بدلنا ہوگا جہاں پر کہا جاتا ہے کہ (Keep on breathing & you will become a secretary)۔جب تک ملک میں ترقیاں ایمانداری کی بنیاد پر نہیں ہوںگی نظام بہتر نہیں ہوگا۔ذاتی رائے میں اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازوں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لئے میدان میں آنا ہوگا اور اس بحران سے نمٹنے کے لئے قانون سازی کرنا ہوگی،ورنہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔

.
تازہ ترین