مطالعہ کی میز پر، ’’Invisible People‘‘ کے نام کی ایک کتاب کے حوالے سے قارئین کے ساتھ نظریاتی احساسات Share کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے!
سرورقِ کے اندر کی طرف کتاب کے مصنف رضا ربانی کا ایک باضابطہ ’’سی وی‘‘ کے ذریعہ تعارف نامہ قاری کو ان کے ذہنی سفر کی ساخت اور پرداخت سمجھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً ان کے اس باضابطہ ’’سی وی‘‘ سے پتہ چلتا ہے۔ ’’سینیٹر رضا ربانی، ایک وکیل اور آئینی مفکر (اسکالر) ہیں۔ عوامی خدمات کا ایک منفرد اثاثہ ان کی جدوجہد کا سرمایہ حیات رہا ہے، انہوں نے اپنی پوری سیاسی زندگی عام لوگوں اور اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کی وکالت، بازیابی اور ترجمانی میں گزاری، (اب بھی ایسا ہی ہے)۔ سیاست کی خار زار وادی کا آبلہ پا مسافر ہونے کے باوجود، زندگی کے ان طویل برسوں میں ان کا ہر سانس لٹریچر، تخلیقی سراغ اور نقوش کے علم اور بیانیے کی تلاش میں گزرا ہے۔
سینیٹر رضا ربانی کے اس باضابطہ سی وی سے پتہ چلتا ہے، انہیں متعدد ایوارڈز بھی پیش کئے گئے، مثلاً ’’نشانِ امتیاز‘‘ آپ کے لئے، صوبوں کے حقوق کی دفاعی جنگ لڑنے پر ’’باچا خان ایوارڈ‘‘ ایک اور اعزاز کی حیثیت رکھتا ہے، ’’پاکستان میں انسانی حقوق‘‘ کی وکلا کمیٹی نے ’’انسانی حقوق کا خدمت ایوارڈ، ان کا استحقاق ڈیکلیئر کیا، ’’ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان‘‘ نے انسانی حقوق کی ناقابل فراموش فراموش کارکردگی پر ان کے لئے 2006کا ’’ہیومن رائٹس ایوارڈ‘‘ تجویز کیا وہ متعدد وزارتوں کے وزیر بھی رہے! مارچ کی 2015میں انہیں بلا مقابلہ پاکستان سینیٹ کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔
یہ ہیں، رضا ربانی، جن کی تخلیقی نگارشات پر مبنی کتابی مجموعہ ’’Invisible People‘‘ ’’گم شدہ لوگ‘‘ مارکیٹ میں دستیاب ہے، گو راقم سے کہیں زیادہ صاحب نظر حضرات، جناب غازی صلاح الدین اور جناب مسعود اشعر نے ان کے اس ادبی کتابی مجموعے کے ٹائٹل کا ترجمہ بالترتیب جو دکھائی نہیں دیتے، اور ’’غیر مرئی لوگ‘‘ کیا ہے، یقیناً ان کی درستی میں رتی بھر اشتباہ بھی تحریری گناہ کے زمرے میں آئے گا، دونوں شخصیات کا علم و مرتبہ اسی پائے کا ہے، بس یونہی دل سے یہ صدا ابھرنے لگی، رضا ربانی کی کتاب کے اس ٹائٹل کا ترجمہ ’’گم شدہ لوگ‘‘ بھی ہو سکتا ہے، یوں محسوس ہوا جیسے یہ ترجمہ دوستونسکی کے ناول ’’ذلتوں کے مارے لوگ‘‘ سے قریب تر ہے، اس کا صوتی آہنگ ان کی کہانیوں کی ایک فطری سی صدا محسوس ہونے لگتی ہے۔
ہاں! ان دونوں مستند اصحاب قلم میں سے ایک واجب الاحترام نے ایک ایسے لمحے کا تذکرہ بھی کر دیا جس پہ اختلافی عرضداشت داخل کئے بغیر ’’اپنے اپنے سچ‘‘ کے اظہار کا ناگزیر قرض ادا نہیں ہو سکتا، تاریخ کا ایسا قرضہ اٹھا لینا بندے کی زندہ موت کے مترادف ہے۔ انہوں نے وہ لمحہ یوں بیان کیا ہے:’’ہاں! ایک زمانہ ہمارے ہاں بھی ایسا آیا تھا جب ان غیر مرئی لوگوں کو مرئی ہونے اور اپنی پہچان پانے کا موقع ملا تھا، یہ موقع دیا تھا ذوالفقار علی بھٹو نے، لیکن وہ موقع بھٹو صاحب نے خود ہی ضائع کر دیا تھا‘‘ اور پھر ’’معاف کیجئے میں سیاست کے میدان میں چلا گیا‘‘ کہہ کے موضوع سخن آگے بڑھا دیا۔
کرب و ابتلا اور آسیب و تاریکی کے اس عہد سے آپ خود پوری طرح گزرے جس عہد کی چھاتی پہ ضیاء الحق کی ایڑی رکھی ہوئی تھی، اس ایڑی کا تباہ کن دبائو آج پاکستان کی مائوں کے رحموں میں پرورش پانے والی وہ نسل بھی بھگت رہی ہے جسے ابھی اس دنیا کے سورج کی کرنیں دیکھنی اور قلقاریاں مارتے اپنی آنکھیں موندنی ہیں، ذوالفقار علی بھٹو نے انسانوں کے کرب و ابتلا اور آسیب و تاریکی کے اس عہد کو جس کی پشت پر خو دساختہ مذہبی اثاثے کی برسوں پہ مشتمل ان تھک اور ان منٹ طاقت موجود تھی، وہ عہد جس کی کوکھ سے پاکستانی سماج کی بے ساختگیوں کی ہر حیثیت، ہر کیفیت، ہر مکالماتی جہاں، فلم اسکرینوں کے قدرتی اسالیب، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے سارے زمانے، بیچ چوراہے نیکی کے کھردرے خنجر سے ذبح کر دیئے گئے، سرمایہ دار نے کہیں اقتدار میں مکمل دخیل قوتوں کا پشت پناہ بن کر، کہیں غریب پاکستانی عوام کے مقدس ترجمانوں کے طاقتور ترین ذریعہ کے طور پر، کرب و ابتلا اور آسیب و تاریکی کے اس عہد میں بوئی جانے والی فصل کے سب سے ’’بڑے زمیندار‘‘ کی گدی قبضے میں کر لی،
پاکستان کے غیر فرقہ وارانہ ریاستی مستقبل، آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت، جمہوری تسلسل اور پاکستانی عوام، چاہے وہ غریب تھے یا سفید پوش، کے سب سے فیصلہ کن رہنما، ترجمان اور طاقت، ذوالفقار علی بھٹو کو ملک کے اندر اور عالمی سطح پر موجود ان تمام گروہوں نے آکٹوپس کی طرح اپنے شکنجے اور نرغے میں لے لیا، اس کا ہر سانس ان کے منصوبوں اور ظلم کا قیدی بن چکا تھا، حالات کے ان سارے اندھیرے غاروں میں بسمل کی مانند تڑپتے ہوئے بھی ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی عوام کے اندر اپنی شناخت اور عزت نفس کا وہ سورج طلوع کیا جس کی تپش آج بھی پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کر رہی ہے، یہ فیصلہ اسی تپش کی بنیاد پر ہو گا، اور ’’غریب کا آخری قہقہہ‘‘ پاکستان کے غیر فرقہ وارانہ اور ریاستی نظام اور لبرل زندگی کا خواب پورا کر کے رہے گا۔
رضا ربانی کے مختصر انسانوں یا مختصر کہانیوں کا یہ تخلیقی مجموعہ بنیادی طور پر 11چھوٹی چھوٹی کہانیاں سناتا ہے۔ تخلیق کار نے از خود ان کہانیوں کا بنیادی تخلیقی عنصر بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’اپنے اس ذہنی سفر کے حاصل بارے میں کوئی ایک حتمی نظریہ سامنے نہیں لا سکتا، میرے قلم سے جو کچھ کاغذ پر منتقل ہوا وہ شاید ان کہانیوں کی وساطت سے زمانے کی گردشوں میں پوشیدہ انسانوں کی آسانیوں یا اذیتوں کی نقشہ گری کے خاکوں کا کوئی لاشعوری متحرک ہو یا پاکستانی دھرتی کے ’’گم شدہ لوگوں، کی صعوبتوں کی برہنگی کے شکار کرنے کی کوئی مقصدیت، جہاں تک سوچتا ہوں میرے اس ذہنی سفر میں پاکستان کے گم شدہ لوگوں، سے جڑے رشتے نے مجھے اس پوشیدہ بدی کو بے نقاب کرنے پر مجبور کر دیا جس نے ہمیں چاروں اور ظاہراً و باطناً گھیر رکھا ہے۔‘‘
پاکستان کے ہر فرد کو یاد ہو گا یا یاد رہنا چاہئے، فوجی عدالتوں کے مسئلے پر ’’6جنوری 2015کو جب 21ویں ترمیم سینیٹ سے پاس ہونے جا رہی تھی تو اس وقت سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی رہنما میاں رضا ربانی تھے۔ شدت، ندامت اور رنج سے ان کی آواز بھر آئی اور وہ صرف اتنا کہہ پائے ’’میں نے 21 ویں آئینی ترمیم کے حق میں اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دیا۔ سینیٹ کے رکن کی حیثیت سے میں پچھلے بارہ سال میں کبھی اس قدر شرمندہ نہیں ہوا جتنا آج ہوں۔ میرا ووٹ پارٹی کی امانت تھا اور اس کے کہنے پر دے دیا اور وہ ایوان سے نکل گئے، عبدالرزاق بھٹی کی اس یاددہانی کا ہر لفظ رضا ربانی کے عوامی رشتے کی جڑت کا تصدیق نامہ ہے جس کے بطن سے ’’گم شدہ لوگ‘‘ (’’Invisible People‘‘) جیسی تخلیقی کاوش پاکستانیوں تک پہنچ رہی ہے۔ افسانہ نگار مظہر اسلام، مبارکباد کے حقدار ہیں، جن کی کوششوں کو اس نہج میں خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔
سرورق کے اندر حبیب جالب کا ایک شعر، قاری کو ایک گھڑی کے لئے خاموش اور ساکت کر دیتا ہے؎
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہے بغاوت لکھنا
لیکن 2017تک پہنچتے پہنچتے، ملکوں اور زمینوں پر رواں اور مسلط کارپوریٹ کلچر کے باعث ’حرف صداقت‘ کی نظریاتی پوزیشن ’’پچک‘‘ گئی ہے، مزید گفتگو پھر کبھی سہی!
.