• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحفظ حقوق نسواں ایکٹ،پنجاب حکومت کا ملتان سے عملی نفاذ کا فیصلہ

 لاہور(امداد حسین بھٹی ) پنجاب حکومت نے تحفظ حقوق نسواں ایکٹ کے عملی نفاذ کاآغاز ملتان سے کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے، جس ے بعد صرف ضلع ملتان کی حد تک خواتین کو ہراساں کرنے والے مردوں کو مانیٹرنگ کڑے پہنائے جا سکیں گے، تاہم اس پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کے بعد اس کا دائرہ کار دیگر اضلاع میں پھیلایا جائیگا، دوسری جانب تحفظ حقوق نسواں ایکٹ میں علماء کرام کی جانب سے دی جانے والی سفارشات کو سردخانے کے سپرد کر دیا گیا ہے اور تاحال مذکورہ قانون میں کوئی ترامیم نہیں کی گئیں جس پر علماء کرام نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت نے علماء کی جانب سے دی جانے والی ترامیم کو شامل کیے بغیر اس قانون کا نفاذ کیا تو حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج کیا جائیگا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ 25مارچ 2017ءکو ملتان میں اس سنٹر کا افتتاح کیا جا رہا ہے اور اسی دن اس قانون کا نفاذ بھی ملتان سے ہو جائے گا، معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے ’’دی پنجاب پروٹیکشن آف وویمن ایگینٹ وائیلنس ایکٹ 2016ء‘‘منظور کیا، جس میں حراساں کرنے والے مردوں کو مانیٹر کرنے کےلیے جی پی آر ایس کڑے لگانے سمیت بعض دیگر ایسی شقیں تھیں جس پر بعض علماء کرام نے شدید احتجاج کیا۔ جس پر وزیراعلیٰ پنجاب نے 3رکنی علماء کمیٹی تشکیل دی، کمیٹی کے سربراہ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر ساجد میر، جماعت اسلامی کے مولانا اسداللہ بھٹو اور جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے کامران مرتضیٰ شامل ہیں اس حوالے سے علماء کمیٹی نے اپنی سفارشات تیار کر کے حکومت کو دی ں جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ حکومت علماء کرام کی سفارشات کی روشنی می ںمذکورہ قانون میں ترامیم کریگی، تاہم اس قانون کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود نہ تو مذکورہ قانون میں کوئی ترامیم کی گئیں اور نہ ہی اس قانون کے تحت جو رولز(قواعد وضوابط) بنائے جانے تھے وہ بنائے گئے، معلوم ہوا ہے کہ پنجاب حکومت چاہتی تھی کہ اس قانون کے نفاذ سے قبل پروٹیکشن سنٹر بن جائے تا کہ ایسا سنٹر بن سکے جس کی ایک چھت تلے متاثرہ خاتون کو تمام سہولیات مل سکیں لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ ملتان میں پہلا خواتین پروٹیکشن سنٹر بنایا جائے جس میں تمام آفیسر خواتین ہوں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ چند روز میں ملتان میں بنائے جانے والے خواتین پروٹیکشن سنٹر کا افتتاح کیا جا رہا ہے، لہٰذا اس قانون کا نفاذ ملتان سے کرنے کے لیے محکمہ سوشل ویلفیئر نے ایک نوٹیفکیشن کا مسودہ تیار کر کے وزیراعلیٰ کو بھیج دیا ہے جس کی اجازت کے بعد ہی سنٹر کا افتتاح ہوگا۔ اس دن سے یہ قانون اس ضلع کی حد تک نافذ العمل ہوجائیگا اور اس قانون کی متنازعہ شقیں بھی بغیر ترامیم کے نافذ العمل ہو جائیں گی، تاہم یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس قانون کے حوالے سے جو قواعد وضوابط بنائے جانے تھے وہ بھی تاحال نہیں بن سکے اس کے باوجود اس قانون کو نافذ العمل کرنے کا نوٹیفکیشن آئندہ چند روز تک جاری ہو جائیگا۔ اس حوالے سے ماہر قانون اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر راشد لودھی نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بنائے جانے والے قوانین ک واس وقت تک نافذ العمل نہیں کیا جا سکتا جب تک رولز نہ بن جائیں کیونکہ رولز ہی بتاتے ہیں کہ کس طرح کارروائی کرنی ہے جبکہ حکومت جو قانون نافذ العمل کرنے جا رہی ہے اس کی بعض متنازعہ شقیں ہیں لہٰذا اگر ر ولز نہیں ہونگے تو ایک بڑا قانونی خلاء پیدا ہو جائیگا اور حکومت اس قانون کے نفاذ سے جو خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہتی ہے وہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔ لہٰذا حکومت اس معاملے میں سنجیدگی سے غور کرے اور تمام قانونی پہلوئوں کو مکمل کرنے کے بعد اس کا نفاذ عمل میں لائے۔ اس حوالےسے حکومت کی جانب سے بنای جانیوالی علماء کمیٹی کے اہم رکن مولانا اسد اللہ بھٹو نے ’’جنگ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علماء نے اس قانون کی متنازعہ شقوں کے حوالے سے اپنی بھرپور سفارشات دی تھیں اور اس قانون کے من وعن نفاذ کو غیر اسلامی قرار دیا تھا لہٰذا حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اس معاملے پر نظر ثانی کرے لیکن حکومت ان تمام سفارشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس قانون کو کسی ایک ضلع میں بھی نافذ کرے گی تو ہم احتجاج کرینگے کیونکہ اس قانون سے خاندانی نظام برباد ہو جائیگا۔اس حوالے سے سیکرٹری سوشل ویلفیئر محمد ہارون رفیق نے ’’جنگ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ آئندہ چند روز میں ملتان میں خواتین کا پروٹیکشن سنٹر کام کرنا شروع کر دے گا ، جس کے باقاعدہ افتتاح سے قبل تحفظ حقوق نسواں بل 2016ء کا نفاذ صرف ضلع ملتان کی حد تک ہو جائیگا۔ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ دیگر اضلاع میں اس قانون کا نفاذ کب ہوگا تو انہوں نے کہا کہ جس جس طرح خواتین پروٹیکشن سنٹرز بنتے جائیں گے اس اس طرح اس ضلع کی حد تک اس قانون کا نفاذ ہوتا جائیگا، جب ان سے پوچھا گیا کہ نہ توحکومت نے اس قانون میں کوئی ترامیم کی ہیں اور نہ ہی رولز بنے ہیں اس کے بغیر یہ قانون کیسے نافذ العمل ہوگا تو انہوں نے کہا کہ رولز کا مسودہ بھی تیار ہے جس کے قانون پہلوئوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ در اصل اصل قانون موجود ہے لہٰذا رولز نہ بھی ہوں تو قانون کے نفاذ میں کوئی قانونی ابہام نہیں ہے، جب ان سے پوچھا گیا کہ اس قانون میں بعض متنازعہ شقیں ہیں جن پر علماء کرام کو اعتراضات ہیں ان اعتراضات کی موجودگی میں اس قانون کا نفاذکسی ایک ضلع میں بھی کیسے ممکن ہو گا تو انہوں نے کہا کہ اس قانون کو اس کے اصل مفہوم میں دیکھنا چاہیے اس میں ایسی کوئی غیر اسلامی شق نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کوئی شق متنازعہ ہے، تاہم اس قانون میں گنجائش ہے کہ اگر اس کے نفاذ کے بعد کوئی قانونی ابہام پیدا ہوتا ہے تو اس میں ترامیم کی جا سکتی ہیں، حکومت اس قانون کے نفاذ سے خواتین کے حقوق کی حفاظت کرنا چاہتی ہے اس کا مقصد مرد اور عورت کے درمیان اختلافات پیدا کرنانہیں اور جہاں تک مردوں کو کڑا پہنانے کا تعلق ہے تو حالات وواقعات کا جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ بھی حکومت نہیں بلکہ عدالت کریگی ۔
تازہ ترین