چھٹی قومی آدم شماری مہم ملک بھر میں زور و شور سے جاری ہے، توقع کی جارہی ہے کہ انیس سال کے طویل عرصے کے بعد حالیہ آدم شماری کی بدولت آبادی کا درست تعین کیا جا سکے گا جو مستقبل میں قومی ترقی کی پلاننگ میں سود مند ثابت ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہر تیسرے سال خانہ شماری اور ہر دس سال بعد آدم شماری کا انعقاد باقاعدگی سے کروایا جاتا ہے اور آج کل انٹرنیٹ کے دور میں یہ کوئی مشکل کام نہیں رہا لیکن پاکستان میں آدم شماری کی تاریخ ہمیشہ سے مختلف عناصر کے مابین تناؤ کا باعث بنی رہی ہے جس کی بنیادی وجہ صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کو نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ (این ایف سی ایوارڈ) کی بدولت کرانا ہے، قیامِ پاکستان کے بعد وسائل کی تقسیم کیلئے رقبے کو معیار بنایا گیا جس پر مشرقی پاکستان (حالیہ بنگلہ دیش) کو زیادہ آبادی لیکن کم رقبہ ہونے کی بنا پر شکوہ رہا، 1971ء کے بعد مغربی پاکستان کے چاروں صوبے بحال ہوئے تو رقبے کی بجائے آبادی کا کلیہ نافذ کر دیا گیا تو آدم شماری کی ملکی سیاست میں اہمیت بہت بڑھ گئی، ہر صوبے کی نظر آدم شماری کے نتائج پر مرکوز ہو گئی، مختلف لسانی و صوبائی گروہوں نے اپنے افراد کی تعداد میں اضافے کو ترقی کا زینہ سمجھ کر من پسند نتائج کیلئے جائز و ناجائز حربہ اختیار کرنا شروع کیا تو دوسری طرف غیر مسلم آبادی کو کم سے کم ظاہر کرکے انہیں قومی دھارے سے دور رکھنے کی سازشیں بھی کی گئیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت غیرمسلم پاکستانیوں کی تعداد 23فیصد تھی جو 1998ء کی گزشتہ آدم شماری میں کم ہوکر 6 فیصد رہ گئی، 1951ء میں ہونے والی پہلی قومی آدم شماری نتائج کے مطابق پاکستان ہندو آبادی 12.9فیصد ہونے کی بنا پر دنیا کا دوسرا بڑا ہندو آبادی والا ملک تھا، پاکستان ہندو کونسل ملک میں جاری آدم شماری مہم کا خیرمقدم کرتی ہے لیکن آدم شماری فارم میں ہندو کمیونٹی کو ہندو اور شیڈولڈ کاسٹ میں الگ الگ اندراج سے یہی نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہے کہ اس اقدام کا مقصد ہندو آبادی کی تعداد کو دو حصوں میں تقسیم کرکے کم ظاہر کرنا ہے جو کہ انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق ہندو کمیونٹی غیرمسلم پاکستانیوں میں پچاس فیصد ووٹ بینک ہونے کی بنا پر سب سے بڑی اکثریت ہے، غیر مسلم پاکستانیوں کے حقوق کے موثر تحفظ کیلئے ان کی درست تعداد کا ادراک ہونا اشد ضروری ہے، اس طرح دیگر حلقوں کی جانب سے بھی آدم شماری میں من پسند نتائج مرتب کرنے کے خدشات کے حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے۔ قومی آدم شماری کا ہر دس سال بعد باقاعدگی سے انعقاد ہونا آئینی تقاضا ہے لیکن ماضی میں آدم شماری کے انعقاد میں بھی روڑے اٹکائے جاتے رہے ہیں۔ 1991ء کی آدم شماری ملک میں جاری سیاسی بحران کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوئی، 1998ء میں وزیراعظم نواز شریف صاحب کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن) حکومت نے پانچویں قومی آدم شماری کا انعقاد کروایا لیکن بدقسمتی سے اگلے برس ہی ملک کو آمریت کے شکنجے میں جکڑ کر آدم شماری نتائج کے ثمرات سے محروم کر دیا گیا، اگلی آدم شماری کو 2008ء میں منعقد کروایا جانا اس وقت کی پیپلز پارٹی حکومت کی آئینی ذمہ داری تھی جو وہ پورا کرنے سے قاصر رہی۔ اب جبکہ حالیہ آدم شماری مہم کے انعقاد کا اعزاز بھی دوسری مرتبہ مسلم لیگ (ن) کوہی حاصل ہوا ہے تو موجودہ حکومت کو ایسے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں جن کی بدولت صاف و شفاف نتائج سب کیلئے قابلِ قبول ہوں۔ میرے خیال میں آدم شماری کرتے وقت ان تمام افراد کا اندراج کیا جانا چاہئے جو پاکستان میں بس رہے ہیں، اگر کسی نے دوسرے صوبے میں قانونی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے گھر جائیداد بنا لی ہے تو اس کا بھی صوبے کے وسائل پر ایسے ہی حق ہونا چاہئے جیسا وہاں کے مقامی افراد کا، اس حوالے سے بالخصوص بلوچستان کی جائز شکایات کا ازالہ کرتے ہوئے مقامی قیادت کو اعتماد میں لینا بہت ضروری ہے۔ صوبہ سندھ کی سیاست میں شہری اور دیہی تقسیم کی کلیدی اہمیت رہی ہے لیکن گزشتہ انیس برسوں میں مہاجر اکثریتی شہر کراچی میں دیگر قومیتوں کے افراد بھی کثیر تعداد میں آباد ہوئے ہیں، دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی اور آبادی کے تناسب میں تبدیلی سے مستقبل قریب میں سندھ کی انتخابی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے، اسی طرح پاکستان کی تقریباً ساٹھ فیصد آبادی پر مشتمل صوبہ پنجاب میں پنجابی کے علاوہ سرائیکی، پوٹھوہاری، ہندکو اور دیگر زبانیں بولنے والے بھی مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں اپنی اہمیت منوانے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں، ملک کے تمام شہریوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے انتظامی اور علاقائی امور میں تبدیلیاں بھی وقت کا تقاضا ہیں جس کی بنا پر نئے صوبوں کے قیام کو بھی زیر غور لایا جا سکتا ہے، فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام سے علاقے کی پسماندگی دور ہونے کے ساتھ سیاسی شعور بیدار ہونے کی توقع ہے، اب ہمیں عرصہ دراز سے پاکستان میں مقیم افغان اور دیگر باشندوں کیلئے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کوئی دیرپا پالیسی بھی وضع کر لینی چاہئے۔ آدم شماری نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں مستقبل میں اپنے انتخابی حلقوں کو ازسر نو ترتیب دینے کی ضرورت بھی محسوس ہوگی، موجودہ پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ میں کوئی ایم این اے پانچ ہزار ووٹ لے کر آتا ہے تو کوئی ایک لاکھ ووٹ لیکر جبکہ غیر مسلم پاکستانوں کی پارلیمنٹ میں رسائی مختلف سیاسی جماعتوں کی ذاتی پسند ناپسند سے مشروط ہے، میرے خیال میں جب ملکی آبادی میں اضافہ لامحالہ طور پر نئے انتخابی حلقوں کی ضرورت اجاگر کرے گا تو ہمیں جمہوریت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم از کم پندرہ انتخابی حلقے غیر مسلموں کیلئے مختص کر دینے چاہئیں جہاں غیر مسلم پاکستانی دہرے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے اپنے حقیقی نمائندوں کا چناؤ کرسکیں۔ غیرمسلم پاکستانیوں اور چھوٹے صوبوں کی احساس محرومی کا خاتمہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب آدم شماری کے نتائج قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ایمانداری سے مرتب کیے جائیں اور ایسا کوئی اقدام نہ اٹھایا جائے جس سے انتشار کا شکار معاشرہ مزید بے چینی کا شکار ہو۔جہاں ایک طرف عوام کو یہ اطمینان ہونا چاہئے کہ برق رفتار انٹرنیٹ، سوشل میڈیا،پرائیویٹ ٹی وی چینلز اور آزاد عدلیہ کی موجودگی میں اب وہ زمانہ نہیں رہا جب حکومتیں اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے آدم شماری نتائج میں آسانی سے ردوبدل کرلیا کرتی تھیں، وہیں حکومت کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ تمام طبقات کی مشاورت سے ایک ایسی قابل قبول آدم شماری کا انعقادکروائے جسکی بدولت ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم یقینی بناکر سماجی انصاف کا بول بالا کیا جاسکے۔ دوسری طرف مخصوص لسانی و صوبائی کارڈ استعمال کرنے والی جماعتوں کوبھی چاہئے کہ وہ ملکی وسائل پر قابض ہونے کیلئے ماضی کے فرسودہ ہتھکنڈوں کو خیرباد کہتے ہوئے آدم شماری مہم کو کامیاب بنانے میں تعاون کریں، آدم شماری نتائج سے خوفزدہ ہونے کی بجائے درست اعدادوشمار کی فراہمی یقینی بنانا ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے۔
.