برسلز: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بیلجیئم کے زیراہتمام محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کی 18ویں برسی منائی گئی۔ برسی کی یہ تقریب پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق صدر حاجی وسیم اختر کی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی جس میں پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کے علاوہ شہر کے صحافتی اور سماجی حلقوں نے بھی شرکت کی اور محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔
تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے حاجی وسیم اختر، راؤ مستجاب احمد خان، شیراز راج، پروفیسر عماد، افتخار احمد عرف پھا بلو اور ملک زبیر نے پاکستانی سیاسی تاریخ کے تناظر میں محترمہ بےنظیر بھٹو شہید اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مجموعی سیاسی کردار کا احاطہ کیا۔
مقررین نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ملک کے اندر عوامی سیاسی حقوق اور اس کے نتیجے میں بین الاقوامی سٹیج پر ایک بہتر پاکستان کیلئے اپنی جان کی قربانیاں دی ہیں۔ اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو شہید کی شہادت کے باوجود پیپلزپارٹی نے ملک میں جاری تینوں بڑے مارشلا کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس نے مغرب کے اسلام اور جمہوریت کے درمیان تقابل کو جمہوریت اور انتہاپسندی کے درمیان فرق کے طور پر پیش کیا اور اپنے آپ کو اندرون ملک اور بیرون ملک قابل قبول قوت بنایا۔
مقررین نے کہا کہ محترمہ بےنظیر بھٹو پاکستان آنے سے پہلے اچھی طرح جانتی تھیں کہ وہ موت کے منہ میں جا رہی ہیں، لیکن انہوں نے اپنی زندگی کو پاکستان میں جمہوریت اور سول بالا دستی کی بحالی کیلئے قربان کردیا، تاہم اس جراءت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے دشمنوں کے ساتھ بیٹھ کر ثابت کیا کہ سیاست صرف مخالفت ہی نہیں بلکہ دانشمندی کا کام بھی ہے۔ بےنظیر بھٹو شہید نے اپنے مخالفین کو ساتھ ملا کر آئین پاکستان کے بعد سب سے اہم دستاویز چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کیا۔
مقررین کا کہنا تھا کہ محترمہ کی شہادت کے موقع پر پاکستان میں ایک اور شخص مکے لہراتا ہوا بہت طاقتور نظر آتا تھا لیکن پھر تاریخ نے دیکھا کہ قوم نے اپنی اپنی قبر میں پہنچنے والی دونوں شخصیات میں سے کس کے جانے کو قومی نقصان سمجھا اور کس کا آج نام ونشان بھی نہیں ملتا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید نے محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بےنظیر بھٹو نے 1994 میں کاسابلانکا میں ہونے والی اسلامی کانفرنس میں جس طرح کشمیریوں کی شمولیت کو یقینی بنایا اسے کشمیری قوم کبھی بھی بھلا نہیں پائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے مقبوضہ کشمیر میں موجود قیادت کو ایک نیا ولولہ تازہ ملا اور وہاں ایک نئی قوت سے سیاسی تحریک شروع ہوئی۔