مارچ کے آخری اتوار کے بعد تو سیاسی مزاح کی برسات شروع ہوگئی ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام ہونے والی کارنر میٹنگ کا حال دیکھ کر یہ تاثر پختہ ہوگیا کہ جمہوریت اور عوامی پارٹی کی دعویدار جماعت کا کوئی بھی جلسہ، پارٹی میٹنگ بدنظمی کا شکار ہوئے بغیر ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ وہ پارٹی ہے جس کی گاڑی کا نہ کوئی تربیت یافتہ ڈرائیور ہے اور نہ ہی کنڈکٹر۔اکثر تقریبات، اجلاسوں اور جلسوں میں جیالے کبھی کرسیاں چلا دیتے ہیں تو کبھی کھانے پر پراتوں کے ساتھ ساتھ میزیں کرسیاں الٹا دیتے ہیں۔ اس دفعہ تو بات مزید آگے بڑھ گئی جیالوں نے پیپلزپارٹی کے ترجمان ٹی وی کے جیالے رپورٹر کا نہ صرف دامن ہی تار تار کر ڈالا بلکہ اپنے آپ کو مرد حر لکھوانے والے زرداری کے منہ سے اس واقعہ کی مذمت میں ایک بھی لفظ نہ نکلا۔کسی حد تک درست ہی سہی لیکن پہلےنعرہ مستانہ تھا کہ پیپلزپارٹی کو کوئی آمر بھی تباہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکالیکن یہ بیانیہ ماضی کا قصہ ٹھہرا۔آج کی بات تو یہ ہے کہ عملی طور پر حقیقی و غیر حقیقی وارث ہی پیپلزپارٹی کو بڑی مشاقی سےمنطقی انجام تک پہنچانے میں بازی لیجانے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔بھٹو کی پیپلز پارٹی پر اس سے برا وقت کبھی نہ آیا تھا کہ پارٹی عملی طور پر چار حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ پہلے حصے یعنی پیپلز پارٹی کی قیادت ننھے منے ذہن کےمالک بلاول بھٹو زرداری کررہے ہیںجنھیں قومی زبان تو دور ملکی ثقافت سے نہ آگاہی ہے نہ آشنائی۔ ابھی تک کوئی رومن انگریزی میں انھیں تقریر لکھ کر دیتا ہے۔ ہر دفعہ انکی کی گئی تقریر نئے عجیب و غریب بیانیے جنم دیتی ہے۔وزیر اعظم بننے کا خواب ناتمام رکھنے والے بلاول کا خوابی دعویٰ ہے کہ وہ دوبارہ پنجاب کو فتح کریں گےحالانکہ زمینی حقائق تو یہ ہیںکہ انھیں موجوہ بلدیاتی انتخابات میںستر فیصد پنجاب میں امیدوارہی دستیاب نہ ہو سکے جو ہوئے اپنی ضمانتیں ضبط کروا بیٹھے۔والد گرامی سے تعلقات کشیدہ ہونے اور علیحدگی کی مبینہ دھمکی کے بعد ان کی آخر کار میڈیا سے دوری کا خاتمہ ہوا وہ جلسوں کے بعد میڈیا کو پریس کانفرنسوں میں بھی دستیاب ہونے لگے ہیں۔انھوں نے اگرچہ زرداری فیکٹر کو کم کرنے کیلئے سیاسی بساط کو دوبارہ ترتیب دینا شروع کردیا ہے۔پنجاب میں پیپلز پارٹی کو دھول چٹانے والے میاں منظور وٹو کو ہٹا کرپنجاب کی پگ ایک غیر ڈیرہ دار شخص قمر الزمان کائرہ کے سر رکھ دی ہے جودن کے چھ گھنٹے کیلئے ایک ٹی وی پر ملازم ہوگئے ہیں۔ پارٹی کےدوسرے حصے کا ذکر آخر میں ہوگا۔پارٹی کے تیسرے حصے یعنی پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ کی قیادت ناہید خان اور صفدر عباسی کررہے ہیں جس میں سابقہ ممبر صوبائی اسمبلی ساجدہ میر سمیت سینکڑوں کارکنان آٹھ سالوں سے پارٹی پر تنقیدی تیر برسا رہے ہیں لیکن آصف علی زرداری نے ان پر پارٹی کے دروازے بند کررکھے ہیں۔پارٹی کے چوتھے حصے کی قیادت آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کررہی ہیں جو خاموشی سے حالات کا جائزہ لے رہی ہیں کہا جارہا ہے کہ کبھی بھی یہ بم پھٹ سکتا ہے۔اب آتے ہیں پارٹی کے دوسرے حصے یعنی پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کی طرف جس کی قیادت آصف علی زرداری کررہے ہیں۔بلاول میںزبان،کلچر،سیاسی عدم تربیت اور لیڈرشپ کی خصوصیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے زرداری عملی طور پر پیپلز پارٹی کے دو بڑے دھڑوں پر قبضہ کئے ہوئے ہیںانکی مرضی سے کوئی پتہ بھی نہیں ہل سکتا ہے۔اب ہم دوبارہ لاہور میں پیپلزپارٹی کی نام نہاد انتخابی مہم کے آغاز کی طرف چلتے ہیں جہاں دوران تقریر زرداری صاحب الیکشن کو آر او کا الیکشن قرار ے رہے تھے۔وہ شاید بھول گئے ہیں کہ اسی الیکشن کی وجہ سے وہ سندھ میں بلا شرکت غیرے حکومت کررہے ہیںاگر یہ آر او کا الیکشن ہوتا تو وہاں بھی پیپلز پارٹی کا قصہ پاک ہوچکا ہوتا۔ ایک طرف وہ پاکستان مسلم لیگ پر پنجاب میں جنگلا بس،اورنج ٹرین اور سڑکوں کی تعمیر میں کمیشن لینے کے رقیق حملے کررہے تھے تو کیا وہ بھول گئے تھے کہ انکی حکومت نےکراچی اور حیدر آبا د میں نہ صرف سڑکوں،پلوں،میٹرو بس اور ٹرین چلانے کے منصوبوں پر سوچنا شروع کردیا ہے کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔انہیں یاد کروادوں کہ سندھی عوام نہیں بھولے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کرپائی۔سڑکوں کی تعمیر ہو،میٹھے پانی کی فراہمی کا معاملہ ہو وہ کچھ نہ کر پائی ہے اور تو اور وہ تو کراچی سے کچرہ تک نہ اٹھا پائی ہے۔
ہر سال کراچی میں فیکٹریاں نذر آتش ہورہی ہیںلیکن آگ بجھانے کیلئے نہ گاڑیاں ہیں اور نہ ہی آلات۔عوام جانتے ہیںکہ ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین سمیت ان کے متعددفرنٹ مین اربوں ڈالرز کی منی لانڈرنگ میں رات دن مصروف رہے ہیں۔ہر سال بجٹ میں گھوسٹ منصوبوں پر اربوں خرچ کرنے کے باوجود لاڑکانہ آج بھی موہنجودڑو جیسا دکھائی دیتا ہے۔وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طرف سے حیدر آباد میں یونیورسٹی اور ائیرپورٹ قائم کرنے کے منصوبوں کے اعلان کے بعد مخالفین کھسیانے ہوکر کھمبا نوچ رہے ہیں۔پنجاب دوبارہ حاصل کرنے کے دعوے کرنے والوں پر واضح ہوجانا چاہئے کہ جان لیں سندھ بھی عوامی ریڈار میں آچکا ہے جہاں کے عوام سےسندھی کارڈ کی بنا پر اب ووٹ حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔کون نہیں جانتا کہ عوام اور بے نظیر بھٹو کی بیٹیاں اس عظیم لیڈر کی شہادت ہرگز نہیں بھولے ہیں کہ اسکے قاتل کہاں ہیں؟کون نہیں جانتا کہ چھ سال تک بلاول کو پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنےنہیں دی گئی۔ بلاول زرداری اختلافات کیا تھے اور ہنوز باقی کیوں ہیں؟عوامی سوالات تو یہ بھی ہیں کہ اچانک لاہور آکر چٹکلے چھوڑ نے والے بلاول کے نکات کہاں گئے جو انھوں نے لہک لہک کر مطالبے کی شکل میں پیش کئے تھے جس پر ان کا مذاق اڑایا گیا تھا؟عوام یہ جاننا چاہتے ہیںکہ بے نظیر کا خون کس نے بیچا؟18 گھنٹے تک ہونے والی لوڈشیڈنگ کو کیوں نہ ختم کیا گیا اور اب یہ کیسے ختم ہوئی ہے ؟رینٹل پاور کیس میں کس نے کرپشن کی؟ہمیں یہ یقین ہے کہ وہ ان سوالوں کا کوئی بھی جواب نہیں دے سکتے لیکن آئندہ انتخابات میں انھیں عوامی جواب ضرور مل جائے گا۔
.