گزشتہ دو تین ہفتوں سے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر ایکٹ1974ء میں ترامیم اور گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے بارے میں سرگرمی سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے وزیر امور کشمیر برجیس طاہر سے ملاقات کی ہے جس میں انہوں نے مجوزہ ایکٹ1974میں ترمیم اور گلگت بلتستان کے معاملات پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور اسی گفتگو کے تناظر میں وزیراعظم آزاد کشمیر اور سپیکر آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی شاہ غلام قادر نے آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید سے ان کی رہائش گاہ پر میرپور میں ملاقات کی ہے۔ جس میں جملہ امور بالخصوص آزاد کشمیر کی عبوری ایکٹ1974ء میں ترامیم، گلگت بلتستان کے آئینی معاملات، آزاد کشمیر میں اصلاحات میرٹ کی بحالی، بلا تخصیص تعمیر و ترقی اور تحریک آزادی کشمیر کے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے دوران عبوری ایکٹ1974اور گلگت بلتستان کے معاملات پر کسی حد تک اتفاق رائے ہوا یہ واضح نہیں ہو سکا۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری حریت قیادت آزاد کشمیر اور سابق صدر اور سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار سکندر حیات سے بھی نکیال جاکر ملاقات کی۔ راجہ فاروق حیدر کا کہنا ہے کہ وہ تمام پارلیمانی پارٹیوں کے لیڈروں سے ملاقات کریں گے تاکہ مشاورت کے ساتھ تمام سیاسی قیادت کو ساتھ لے کر آگے چلیں۔ جب سے سی پیک شروع ہوا ہے گلگت بلتستان کا معاملہ انٹرنیشنل نوعیت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستانی اخبارات کے ایک سیکشن میں یہ خبریں آئیں کہ چین نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کو اپنا صوبہ بنالے تاکہ بھارت کا یہ اعتراض مسترد ہو جائے کہ گلگت بلتستان بھارت کا اٹوٹ انگ اور اس کا حصہ ہے۔ مگر چین کے اس مطالبے کی کہیں بھی تصدیق نہ ہو سکی۔ اس کے برعکس چین نے حالیہ دنوں میں کشمیر کے مسئلہ پر اپنا اصولی موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو بات چیت کے ذریعہ کشمیر کے دیرینہ مسئلہ کو حل کرنا چاہئے۔ سی پیک کے منصوبے پر سلامتی کونسل کی قرارداد بھی جوکہ متفقہ طور پر منظور ہوئی بڑی اہمیت کی حامل ہے جس سے بھارت کی جانب سے سی پیک پر اعتراض کو بڑا دھچکہ لگا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعہ سے سی پیک منصوبے کو ایشیا کے بیشتر ممالک کے لئے اقتصادی ترقی کو تیز تر کرنے کا بین القوامی منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس منصوبے سے اقتصادی تجارتی، جدید صنعتی ترقی کا انفراسٹریکچر تعمیر کرنے میں مدد ملے گی۔ جس سے خطے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ آزاد کشمیر کی قیادت ماضی میں اس بات پر متفق رہی ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر دراصل ریاست جموں و کشمیر کے آزاد کرائے گئے خطے ہیں جن کو ان کے آئینی اور انتظامی حقوق ملنے چاہئیں اور یہ کہ دونوں حصے پاکستان کے صوبے نہیں ہیں تاکہ وقتیکہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ بذریعہ رائے شماری نہیں کر لیتے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ بھارت اور پاکستان اس بات کے پابند ہیں کہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعہ حل کریں۔ ماضی میں آزاد کشمیر کے حقوق اور گلگت بلتستان کے حقوق پر بات چیت ہوتی رہی ہے۔ آزاد کشمیر کے سیٹ اپ کو ایکٹ1974ء کے ذریعہ چلایا جا رہا ہے۔ گلگت بلتستان کا انتظام معاہدہ کراچی کے تحت حکومت پاکستان کے ذمہ ہے۔ مگر پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کرائے گئے مگر اس اسمبلی کو قانون ساز اسمبلی برائے گلگت بلتستان قرار دینے کی بجائے صوبائی اسمبلی کا درجہ دیا گیا اور وزیر اعلیٰ گلگت بنا کر پاکستان کا پانچواں صوبہ قرار دینے کی کوشش کی گئی اب جبکہ یہ معاملہ پھر سر اٹھا رہا ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا باضابطہ طور پر پانچواں صوبہ بنانے کی شعوری کوشش کی جارہی ہے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کی تمام کشمیری قیادت سے مشاورت خوش آئند ہے۔ راجہ فاروق حیدر ایکٹ1974ء کو ختم کرنے، آزاد کشمیر کو بااختیار بنانے اور وزارت امور کشمیر کو ختم کرنے کے نعرے لگاتے رہے ہیں۔ اب جبکہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کی طرف سے آزاد کشمیر کے عبوری ایکٹ1974ء میں ترامیم کے لئے بنائی گئی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے۔ راجہ فاروق حیدر کے لئے موقع ہے کہ آر پار قیادت بشمول گلگت بلتستان کی قیادت کی توقعات پر پوار اترتے ہوئے کمیٹی میں آواز بلند کریں کہ آزاد کشمیر حکومت کو بااختیار بنایا جائے۔ دفاع امور خارجہ اور رسل و رسائل کے سوا تمام محکمے آزاد کشمیر حکومت اور گلگت بلتستان کی حکومت کو منتقل کئے جائیں۔ سی پیک کے تحت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو سڑک کے ذریعہ ملایا جائے۔ سی پیک(CPAC) کے تحت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں صنعتی ترقی کے زون قائم کئے جائیں اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی غیر دانشمندانہ سوچ کو ترک کرکے وہاں پربااختیار حکومت بنائی جائے۔ گلگت بلتستان کو آئینی، مالی اور انتظامی حقوق ضرور ملنے چاہئیں مگر آزادی کشمیر کے تناظر میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور مقبوضہ کشمیر کی قیادت یک زبان ہیں کہ جب تک پوری ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی سے نہیں کیا جاتا تب تک کسی بھی حصے کو پاکستان یا بھارت میں ضم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی موجودہ قیادت کو تاریخ کا یہ سبق یاد رکھنا چاہئے کہ بھارت کی ہر کوشش کےباوجود کشمیریوں نے کبھی بھی کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کے مقبول لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدہ کے بعد آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی کوشش کی تھی مگر کشمیری نوجوانوں نے سخت مزاحمت کا اعلان کیا تھا جس کی وجہ سے بھٹو کو اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا تھا۔ نواز شریف حکومت گلگتیوں اور بلتیوں کو ان کا حق حکمرانی واپس کرے وہاں بااختیار حکومت قائم کرے جوکہ نہ صرف تعمیر و ترقی کرے غربت کا خاتمہ کرے بلکہ کشمیر کی آزادی کی پرامن جدوجہد کو آگے بڑھائے۔ ریاست جموں و کشمیر کے پانچ خطے اپنا پیدائشی حق چاہتے ہیں۔ کشمیر، لداخ، جموں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ایک وحدت ہیں اور اس وحدت کو توڑنے کی ہرکوشش ناکام ہوگی۔ آزاد کشمیر پیپلز پارٹی کے چیئرمین چوہدری لطیف اکبر، مقبوضہ کشمیر کی قیادت علی گیلانی، یاسین ملک اور میرواعظ عمر فاروق گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ سمجھتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی قیادت ہوش کے ناخن لے اور تحریک آزادی کشمیر کے اس نازک موڑ پر گلگت بلتستان کو صوبے بنانے کی کوششیں ختم کرے۔ ممتاز تجزیہ نگار اور دانشور پروفیسر نذیر تبسم کا کہنا ہے کہ سی پیک کی حمایت میں اقوام متحدہ کی قرارداد آنے سے گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی ضرورت نہیں رہی۔ مبصرین کہتے ہیں کہ پاک چین کاریڈور کے طفیل گلگت بلتستان کی اہمیت بڑھ چکی ہے۔ اس کو صوبہ بنانے کی پاکستانی بیوروکریسی کی پالیسی بدنیتی پر مبنی ہے۔ کشمیری عوام بشمول گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے عوام یہی چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے کہ نہ ہی مسئلہ کشمیر کی تسلیم شدہ بین الاقوامی حیثیت پر کوئی منفی اثر پڑے اور نہ ہی گلگت بلتستان کو ترقی کے ثمرات سے محروم کیا جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کشمیری قیادت حکومت پاکستان سے کس حد تک اپنے حقوق لینے میں کامیاب ہوتی ہے۔
.