اسلام آباد(محمد صالح ظافر+خصوصی تجزیہ نگار) ماہ رواں کے تیسرے ہفتے میں پنجاب کے ضلع چکوال کی ایک صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے ضمنی انتخاب کے موقع پر گھمسان کا رن پڑنے والا ہے جہاں حکمران پاکستان مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان براہِ راست پنجہ آزمائی ہوگی۔ اس انتخابی معرکے میں آصف زرداری کی پیپلز پارٹی ، عمران خان کی تحریک انصاف کا نہ صرف کھل کر ساتھ دے رہی ہے بلکہ حلیف کا کردار بھی ادا کررہی ہےتحریک انصاف کے سربراہ عمران خان گزشتہ چار سال سے ہر ضمنی انتخاب میں اپنی تقریر کے جوہر ضرور دکھاتے ہیں اور لمبے چوڑے دعوے کرکے رائے دہندگان کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں یہ تحریک انصاف یا امیدوار کی بدنصیبی ہوتی ہے کہ نوے فیصد سے زیادہ ضمنی انتخابات میں خان کا پائوں رکھنا سبز قدم ثابت ہوا ہے اور ان کا امیدوار شکست سے ہمکنار ہوتا آیا ہے ان انتخابی نتائج سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ خان اور حکومت کے دوسرے ناقدین رائے عامہ کو کسی حد تک متاثر کرسکے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق پاناما دستاویزات کے ’’افشا‘‘ کو رائے عامہ پاکستان کے خلاف سنگین سازش سمجھتی ہے جس کا مقصد پاکستان میں افراتفری پیدا کرنا ہے تاکہ اسے غیر مستحکم کرکے چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبے سمیت معیشت میں انقلابی سدھارکے امکا نا ت کو معدوم کیا جاسکے۔ عوام کا خیال ہے کہ بحر الکاہل کے جنوبی ساحل پر واقع ایک ایسے شہر میں جہاں انسانوں سے زیادہ ’’جنات‘‘ کا بسیرا ہوتا ہے ایسی دستاویزات کو ’’برآمد‘‘ کرنا کسی گھنائونی سازش کے سوا کچھ نہیں۔ اگر وہ لوگ جنہو ں نے ان دستاویزات کو عام کیا ہے اس قدر ہی دیانتدار اور قابل اعتماد ہوتے تو وہ آج اپنے ملک کی جیل میں نہ ہوتے حتیٰ کہ عدالتوں نے فراڈ کے الزام میں گرفتار ان لوگوں کی ضمانت درخواست بھی مستر کردی ہے ۔ ان جرائم پیشہ افراد نے اپنی مطلب براری کے لئے دنیا کے پاکستان سمیت ’’نشان زدہ‘‘ ممالک میں ایسے افراد کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں جنکی اپنے ملک اور قومی اداروں کے ساتھ وفادا ریا ں مشتبہ تھیں اور با آسانی ان کی خدمات چند ٹکوں کے عوض حاصل کی جاسکتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مخصوص گھرانے کو جس کی آسودہ حالی کا شھرہ پانچ عشرے قبل سے موجود تھا اسے نشانہ بناکر اپنا مذموم مقصد حاصل کرنے کی سعی کی گئی کبھی کسی ادارے کو یہ توفیق ہوئی ہے کہ وہ جائزہ لے اور بتائے کہ یورپ، سوئٹزر لینڈ، دبئی، مشرق بعید اور لندن میں کس کس پاکستانی کی جائیداد موجود ہے اور اس نے کونسے ذرائع سے ان جائیدادوںکو حاصل کیا ہے جانچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اگر کسی مقتدر شخص نے اپنی حیثیت کے ناجائز استعمال سے دولت یکجا کی ہے تو اس کی تحقیق کی جائے۔ اگر کسی نے قرض معاف کرایا ہے اور اختیارات کا نامناسب استعمال کرتے ہوئے کمیشن یا کک بیک حاصل کیا ہے تو اس کا سراغ یہاں دیکھا جائے، اگر جائیدادوں پر کسی نے ناجائز قبضہ کیا ہے تو اس کی گوشمالی یہاں کی جائے۔ اس کی بجائے کاغذوں کے لایعنی پلندے کو ہرا ہرا کر اور اخباری تراشے پیش کرکے محض گالم گفتارکی طاقت سے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی جو زیر تذکرہ انتخابی نتائج سے ثابت ہورہی ہے کہ ناکام ہوگئی ہے، چکوال کے علاقے تلہ گنگ میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے جس انداز میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو دیانتداری کا چیمپئن قرار دیا ہے اور جس لہجے میں مسلمانوں کے خون کے پیاسے اس بھارتی وزیر اعظم کی تعریف کی ہے اس سے محب وطن حلقوں کا ماتھا ٹھنکا ہے خان یہ فراموش کرگئے کہ وہ جس سرزمین پر کھڑے ہوکر پاکستان اور مسلمانوں کے بدترین دشمن کی تعریف و توصیف کررہے ہیں وہ نمازیوں اور شہدا کی دھرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کو نیچا دکھانے کیلئے عمران خان نے مودی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے کی کوشش کی تو مجمع میں سے متعدد افراد نے وہاں سے چلے جانا ہی موزوں سمجھا۔ یہ کم افسوسناک نہیں کہ بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے محض تیسرے دن عمران خان عام جلسے میں بھارتی وزیر اعظم کی تعریف کرنے میں مصروف تھے۔ اتوار کو سماجی ذرائع ابلاغ سے پیش کردہ ایک تصویر کو بڑی شہرت ملی ہے جس کے بارے میں وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے بتایا کہ اس میں انکے والد نواز شریف اور والدہ محترمہ کلثوم نواز شریف ایک خوبصورت کیک کاٹ کر اپنی شادی کی چھیا لیسو یں سالگرہ منارہے ہیں۔ سیاسی پیغامات سے لبریز اس تصویر کے بارے میں مریم نواز شریف نے بتایا کہ یہ تقریب انکی دادی محترمہ شمیم شریف کی اقامت گاہ پر منعقد ہورہی ہے اور کیک سالگرہ منانے والے کے بہن بھائیوں کی طرف سے پیش کردہ ہے۔ تصویر میں وزیر اعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی بھائی کے برابر جھک کر کیک کاٹنے کے ’’کارخیر‘‘ میں حصہ لے رہے ہیں۔ محض اس کی ایک تصویر نے شریف خانوادے کے حوالے سے پھیلائی گئی بے بنیاد کہانیوں اور افواہوں کو زمیں بوس کردیا ہے جو حالیہ ہفتوں میں تواتر سے پھیلائی جارہی تھیں اور یہ ایسے خاندان کے بارے میں تھیں جس کے حفظ مراتب کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ مریم نواز شریف شادی کی سالگرہ کا شمار بیان کرنے سے گریز کرتیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو بری نظر سے محفوظ رکھے۔ قومی سیاست میں شائستگی کو بحال کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے اس سلسلے میں سب سے زیادہ درس و تدریس کی ان سیاسی نما کھلاڑیوں کو ضرورت ہے جو دشنام اور الزام کو اپنی سیاست کی معراج سمجھتے ہیں اور فراموش کردیتے ہیں کہ وہ جس ملک میں رہ رہے ہیں وہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا اور اسلام کی تعلیمات سے روگردانی کرکے وہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔