رواں صدی کے آغاز میں اقوام متحدہ نے اپنے تاریخی ملینئم سمٹ اجلاس میں دنیا بھر میں ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کیلئے پندرہ برسوں پر محیط ملینئم ڈویلپمنٹ گولز (ایم ڈی جیز) مقرر کیے تھے، ایم ڈی جیز (MDGs)میں 2015تک غربت و بھوک کا خاتمہ، پرائمری تعلیم، خواتین کو بااختیار بنانا، صنفی امتیازی سلوک کی حوصلہ شکنی، نوزائیدہ بچوں کی اموات میں کمی، زچہ و بچہ کی صحت، ایچ آئی وی ایڈز، ملیریا جیسے موذی امراض کا مقابلہ، ماحولیاتی تحفظ اور ترقیاتی مقاصد کیلئے عالمی شراکت کاری کو مستحکم کرنا شامل تھے، اجلاس میں پاکستان سمیت دنیا کے193ممالک اور 23بین الاقوامی تنظیموں نے ترقیاتی ترجیحات کے تعین کے اس عہد نامے پر دستخط کیے، یوں تو ایم ڈی جیز اپنی مدتِ اختتام کے موقع پر پوری دنیامیں ہی ناکامی سے دوچار ہو گئے لیکن پاکستان میں سرے سے ایم ڈی جیز کے اہداف کے حصول کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، پاکستان میں ناکامی کی بنیادی وجوہات میں ڈکٹیٹر حکومت کی عدم توجہی، سیاسی عدم استحکام، منصوبہ بندی کا فقدان اورملک میں دہشت گردی کا عروج سرفہرست قرار دئیے جا سکتے ہیں، ایک اور اہم وجہ ایم ڈی جیز کو غیر ملکی ایجنڈا سمجھتے ہوئے مقامی سطح پر قبول نہ کیا جانا بھی تھا۔ ملینئم ڈویلپمنٹ گولز کی مدتِ اختتام کے بعد اقوامِ متحدہ نے ایم ڈی جیز کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے سترہ اہداف پر مشتمل سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز (SDGs)یعنی پائیدار ترقیاتی اہداف کی ڈیڈ لائن 2030مقرر کی تو خوش قسمتی سے پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں عوام کی منتخب جمہوری حکومت برسر اقتدار تھی جس نے نئے متعارف کردہ اہداف کو قومی ترقی کا ایجنڈا قرار دے کر تیزی سے کام شروع کر دیا، اقوام متحدہ میں ایس ڈی جیز کی تقریب رونمائی سے ایک برس قبل حکومت پاکستان نے وژن 2025کے تحت ملک کو ایشیائی ٹائیگر بنانے کے عزم کا اعادہ کیا تھا، پائیدار ترقی اہداف ملکی ترقی کے روڈ میپ وژن2025کے عین مطابق قرار دئیے گئے ہیں اور ایس ڈی جیز ایجنڈے کے حصول کیلئے وفاقی بجٹ سے35 بلین روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں حکومتِ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی کے اشتراک سے وفاقی و صوبائی سطح پر ایس ڈی جیز سپورٹ یونٹس کے قیام کی منظوری دی جس کا مقصد اہداف کے حصول کیلئے اٹھارویں ترمیم کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی، اقتصادیات اور شماریات سے متعلقہ سرکاری وزارتوں اور محکموں کے مابین تعاون کو فروغ دینا ہے۔ کوآرڈنیشن مکینزم وضع کرتے ہوئے وفاقی سطح پر پلاننگ کمیشن میں ایس ڈی جی یونٹ جبکہ صوبائی سطح پر متعلقہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن میں ایس ڈی جی یونٹ کا قیام عمل میں لایا گیا، نیشنل کوآرڈنیشن کمیٹی کے علاوہ صوبائی سطح پربھی مختلف شعبوں کے مابین کو آرڈنیشن کو یقینی بنایا گیا ہے، اس حوالے سے موجودہ دورِ حکومت میں وفاقی کیبنٹ کمیٹی، صوبائی کیبنٹ کمیٹی اور پارلیمانی سیکرٹریٹ برائے ایس ڈی جیز کا قیام عمل میں لایا گیا، وزیراعظم نواز شریف نے پرائم منسٹر ٹاسک فورس برائے ایس ڈی جیز کا بھی اعلان کیا ہے، حکومتِ پاکستان کی طرف سے ملک میں پائیدار ترقی اہداف کے حصول کیلئے جو حکمت عملی تیار کی گئی اس میں پلاننگ اور بجٹ کو ایس ڈی جیز کے مطابق تیار کرنا، ڈیٹا کی مانیٹرنگ، رپورٹنگ اور نتائج طریقہ کار میں بہتری لانا، ایس ڈی جیز ایجنڈا 2030کے مطابق فنانسنگ کو یقینی بناتے ہوئے جدت لانا ہے۔ میری معلومات کے مطابق ایس ڈی جیز کے نفاذ میں جو مشکلات درپیش ہیں ان میں سب سے اہم ترین معلومات کا فقدان ہے، مختلف ادارے اپنی آسانی کیلئے مختلف طریقوں سے ڈیٹا کا اندراج کرنے میں مصروف عمل ہیں، کہیں ڈیٹا باقاعدگی سے دستیاب ہے تو کہیں ڈیٹا دستیاب ہے لیکن باقاعدگی سے نہیں اور کہیں نہ تو ڈیٹا دستیاب ہے اور نہ ہی باقاعدگی کا کوئی تصور ہے، اسی طرح اقوامِ متحدہ نے جو انڈیکٹر بیان کیے ہیں ان کو مقامی سطح پر لاگو کرنے کیلئے لوکلائزیشن کی ضرورت بھی محسوس کی جارہی ہے۔ موجودہ حکومت نے ایم ڈی جیز کی ناکامی سے جو سبق حاصل کیا ہے وہ پندرہ سالہ لانگ ٹرم حکمت عملی کے ساتھ ساتھ شارٹ ٹرم حکمت عملی بھی وضع کرنا ہے تاکہ پائیدار ترقی اہداف کی جانب گامزن سفر پر پیشرفت کا جائزہ لیا جا سکے، یو این ڈی پی کے تعاون سے تین سال کے دورانیے پر پنجاب ایس ڈی جیز سپورٹ پروجیکٹ کے تحت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ یقینی بناتے ہوئے جو فریم ورک وضع کیا گیا ہے ان میں ہیلتھ، ایجوکیشن، اسکل ڈویلپمنٹ، اربن ڈویلپمنٹ اور ایگریکلچر سمیت دیگر شعبوں میں بہتری لاتے ہوئے2018تک پنجاب میں 8فیصد اکنامک گروتھ ریٹ کا حصول، صوبے میں پرائیویٹ سیکٹر کی سالانہ سرمایہ کاری کو ساڑھے سترہ بلین امریکی ڈالرز، ہر سال ایک ملین روزگاری مواقع کو یقینی بنانا، 2ملین کی تعداد میں گریجویٹس کو مختلف ہنروں میں تربیت کی فراہمی، سالانہ ایکسپورٹ میں پندرہ فیصد اضافہ اور صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بناتے ہوئے جرائم پر قابو پانا شامل ہے، اسی طرز پر صوبہ سندھ میں ایس ڈی جیز اسپورٹ پروجیکٹ کیلئے پچاس فیصدی مالی معاونت یو این ڈی پی نے فراہم کی ہے جبکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت دیگر صوبوں کو بھی ایس ڈی جیز کے حصول کیلئے ایسا ہی طریقہ کار اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں پائیدار ترقی اہداف کے سفر کا جائزہ لیا جائے تو ایس ڈی جیز کو پاکستان وژن 2025میں ڈھالنا، ایس ڈی جیز کو بطور پاکستان ڈویلپمنٹ گولز قبول کرنا، ایس ڈی جیز ایجنڈا 2030کے تحت قومی پروگرام کا اجرا، پارلیمنٹ میں متفقہ قرارداد کی منظوری سے پائیدار ترقی اہداف کو قومی ترقی اہداف کا ایجنڈا قرار دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹریٹ برائے ایس ڈی جیز کا قیام، پنجاب سندھ سمیت صوبائی اور وفاقی سطح پر پلاننگ کمیشن میں ایس ڈی جیز سپورٹ یونٹ کا قیام اہم ترین پیش رفت قرار دی جا سکتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عملی طور پر کامیابیوں کے حصول کیلئے ہمیں ڈرائنگ روم اور فائیو اسٹار ہوٹلز سے باہر آکر عوا م کو اس جدوجہد میں شامل کرنا ہو گا، عوام کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ یہ ترقی کا ایجنڈا عوام کا اپنا ایجنڈا ہے، اس حوالے سے ایس ڈی جیز سپورٹ یونٹ کو صوبائی یونٹس کے اشتراک سے پائیدار ترقی اہداف پر پیش رفت سے عوام کو باقاعدگی سے آگاہ کرنا چاہئے اور آج کے ڈیجیٹل دور میں یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے لیکن اب تک ایس ڈی جیز یونٹس سے متعلق ایک مخصوص ویب سائٹ تو دور کی بات متعلقہ وزارتوں محکموں میں اس حوالے سے ایک ویب پیج بھی دستیاب نہیں جس کی بنا پر ایس ڈی جیز یونٹس سے متعلق پراسراریت میں اضافہ ہو رہا ہے، دوسری طرف یو این ڈی پی کو بھی اس عوامی تاثر کی نفی کرنا ہو گی کہ غیر ملکی امداد عام طور پر سرکاری اداروں کو بطور رشوت غیرملکی ایجنڈے کو پروان چڑھانے کیلئے فراہم کی جاتی ہے، ایس ڈی جی یونٹس کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد کی تعیناتی بغیر کسی سیاسی دباؤ کے خالصتاً میرٹ پر کی جائیں اور ان کی مکمل سی وی بمعہ تعلیمی و پیشہ ورانہ قابلیت ویب سائٹ پر دستیاب ہوں، شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم اہداف کے حصول کیلئے روڈ میپ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا جائے، انڈیکیٹرز کی نشاندہی کیلئے ایمانداری سے صحیح ڈیٹا استعمال کرکے درست نتائج سے عوام کو باخبر رکھا جائے، ڈیٹا کے یکساں اندراج کیلئے ایک قابل فہم اسٹینڈرڈ کی تیاری ایس ڈی جیز یونٹ کی اولین ترجیح ہونی چاہئے جبکہ عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنے کیلئے ایک بھرپور آگاہی مہم بھی وقت کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں میرا ارادہ ہے کہ ملک وقوم کی بہتری کیلئے ایس ڈی جیز کے سترہ اہداف پر پاکستان میںپیش رفت پر وقتاً فوقتاً عوام کو آگاہی اپنا قومی فریضہ سمجھ کر فراہم کروں۔
.