واشنگٹن (رپورٹ :وسیم عباسی) سابق صدر پرویزمشرف نے حکومت پاکستان پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تحت نئی امریکی انتظامیہ سے تعلقات بڑھانے پر زور دیا ہے جس پر اب ماضی کا کوئی بوجھ نہیں ہے۔ وہ جان ہاپکنز یونیورسٹی میں شیریں طاہر خیلی اور شاہد جاوید برکی کی جانب سے نئی پالیسی اسٹڈی ’’پاکستان ٹو ڈے: دی کیس فار یو ایس، پاکستان ریلیشنز‘‘ کی رونمائی کےموقع پر کلیدی خطاب کررہےتھے۔ پرویز مشرف نے کہا کہ امریکا کو پاکستان کے حو الے سے پالیسی بناتے ہوئے دنیا کے بدلتے منظر نامے کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کمزور تر مرحلے سے گزرر ہےہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں سیاسی حکومت کو تبدیل کرنے کا نظام ہونا چاہئے۔ سابق صدر نے کہا کہ اب دنیا یک قطبی سے کثیر القطبی میں تبدیل ہوگئی ہے جہاں چین اور روس بھی نئے بین الاقوامی کرداروں کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے افغانستان میں اپنی فوجی فتح کو سیاسی کامیابی میں تبدیل نہ کرکے بھیانک غلطی کی ۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہناتھا کہ ملک میں طرز حکمرانی بہتر بنانے کے لئے جمہوریت کو موزوں کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نظام میں چیک اینڈ بیلنس ہونا چا ہئے تاکہ ناکام ثابت ہونے پر سیاسی حکومت کو تبدیل کیا جاسکے۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں قومی سلامتی کے سابق مشیر جنرل (ر) محمود درانی نے کہا کہ قابل قیاس حد تک مستقبل میں فوج حکمرانی، خارجہ پالیسی اور امن و امان میں اپنا کردار ادا کرتی رہےگی۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ دیگر سرگرمیوںمیں ملوث ہوجانے سے فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا میرےخیال میں فوجی انقلاب کی نہیں بلکہ سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تعلق ہے موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہیں۔ ورلڈ بینک کے سابق نائب صدر شاہد جاوید برکی نے کہا کہ پاک امریکی تعلقات کی 70؍ سالہ تاریخ میں امریکا کو پاکستان کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان کوئی ناکام ریاست نہیں بلکہ تیزی سے سماجی اور اقتصادی ترقی کرنے والا ملک ہے۔