• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں تین روز قبل ایک مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مبینہ طور پر توہین مذہب کے شبہ میں مشال خان نامی تیئس سالہ طالب علم کا بہیمانہ قتل یقیناً ایک ایسا سنگین جرم ہے جو نہ صرف اسلام کی ان واضح تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے جن کی رو سے کسی بڑے سے بڑے جرم پر بھی مجاز عدالت کے زیر اہتمام مکمل تحقیق، عدالتی عمل کی تکمیل اور ملزم کو صفائی کا موقع دیے بغیر سزا نہیں دی جاسکتی اور ایسا کرنا بجائے خود جرم قرار پاتا ہے بلکہ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک کا قانون ایسی کسی کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔ اس المناک اور انسانیت سوز واقعے کے جو مناظر سوشل میڈیا کے توسط سے منظر عام پر آئے ہیں وہ ہر اس شخص کے لئے انتہائی روح فرسا اور الم انگیز ہیں جو انسانی جذبات اور احساسات سے بالکل ہی عاری نہ ہو گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس وحشیانہ واردات پر پورے ملک میں تمام سیاسی رہنماؤں، عوامی حلقوں اور قومی زندگی کے ہر شعبے کے افراد کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے گزشتہ روز اس واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے خیبر پختونخوا پولیس کے انسپکٹر جنرل سے چھتیس گھنٹوں میں واردات کی تمام تفصیلات پر مشتمل رپورٹ طلب کر لی جبکہ وزیراعظم نے مشال خان کے قاتلوں کو کسی قسم کی رعایت نہ دینے کی یقین دہانی کراتے ہوئے پوری قوم سے ان عناصر کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی ہے جو اس نوعیت کے واقعات کے مرتکب ہوتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے والے عناصر کو ریاست کسی صورت برداشت نہیں کرے گی اور اس رجحان کی روک تھام کے لئے تمام ضروری اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔ ملک میں ایسا ماحول پیدا نہیں ہونے دیا جائے گا جس میں باپ اپنے بیٹوں کو مشتعل ہجوموں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دئیے جانے کے خوف سے تعلیم گاہوں میں بھیجنا بند کر دیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں مردان یونیورسٹی کے طالب علم کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کے بغیر کسی مسلمان ہی کا نہیں غیر مسلم کا قتل بھی سنگین جرم ہے لہٰذا مردان میں پیش آنے والے سے انسانیت سوز جرم کو مذہب سے جوڑنا سراسر بے انصافی اور اسلامی تعلیمات کی گمراہ کن تعبیر ہے۔ چوہدری نثار کا یہ موقف بلاشبہ حقائق کے عین مطابق ہے۔ قرآن پاک میں ایک انسان کا ناجائز قتل بھی دنیا کے تمام انسانوں کے قتل کے برابر سنگن جرم قرار دیا گیا ہے حتیٰ کہ اسلام کے قوانین جنگ بھی انصاف اور انسانیت دوستی کی بہترین مثال ہیں جن کی رو سے سفاکانہ قتل و غارت گری واضح طور پر ممنوع ہے۔ لہٰذا مشال خان کے خلاف انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کے بغیر ہجوم کے ہاتھوں ہونے والی بہیمانہ کارروائی کو اگر کچھ لوگ مذہبی تعلیمات کا تقاضا یا نتیجہ سمجھتے ہیں تو علمائے کرام کو ان کی غلط فہمی دور کرنے کا مؤثر اہتمام کرنا اور ذرائع ابلاغ کو بھی اس ضمن میں مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مشال خان کی موت گولیاں لگنے سے واقع ہوئی ان پر تشدد بعد میں کیا گیا۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق مشال خان پر حملے کی کارروائی میں یونیورسٹی کے چھ ملازم بھی ملوث تھے جن میں سے تین کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ڈی پی او مردان کے بقول تحقیقات کے بعد مزید پانچ ملزمان کی گرفتاری عمل میں آئی ہے یوں زیر حراست افراد کی مجموعی تعداد 13ہو گئی ہے۔ ان ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے ان کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ بھی لے لیا گیا ہے۔ لہٰذا توقع ہے کہ واردات کے تمام حقائق جلد منظر عام پر آجائیں گے اور واقعے کا از خود نوٹس لینے کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ خود اس معاملے میں انصاف کے تقاضوں کی تکمیل اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کو یقینی بنائیں گے کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں انصاف کرنا ہجوم کا نہیں عدالت ہی کا کام ہوتا ہے۔

.
تازہ ترین