20 جنوری 2016 ء کی شام باچا خان کے نام پر قائم یونیورسٹی میں ان کی برسی کے موقع پر ایک مشاعرہ منعقد کیا جانا تھا۔ صبح سویرے یہاں دشمن نے حملہ کر دیا۔ اساتذہ اور طالب علموں سمیت 20 افراد شہید ہوئے۔ کیمسٹری کے استاد سید حامد حسین نے دہشت گردوں کیساتھ دوبدو لڑتے ہوئے جان دی۔ حامد حسین باچا خان کا حقیقی بیٹا ثابت ہوا۔ باچا خان پر بات سے پہلے مگر یہ نکتہ کہ جہل کے لشکر کی طرف سے علم کے معبدوں پر یہ پہلا حملہ نہیں ہے۔ 2001ء میں پاکستانی ریاست نے افغانستان کی کشاکش سے دست کشی کا اعلان کیا تو دہشت گردوں نے مری اسکول پر حملہ کیا تھا۔ سوات ، قبائلی ایجنسیوں اور پختونخوا میں جہاں جہاں تاریکی نے پائوں رکھا، درس گاہوں پر حملے کئے گئے۔ ہنگو کا اعتزاز حسن اسکول پر حملے کی مزاحمت کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔ راولپنڈی اور کراچی کےا سکولوں پر بھی حملے کئے گئے ۔ پشاور پبلک آرمی اسکول پر حملہ تو ابھی سامنے کی بات ہے۔ پاکستان کے دشمن جانتے ہیں کہ اس قوم کا اصل سرمایہ وہ ہاتھ ہے جنہوں نے کتاب اٹھا رکھی ہے، جو قلم پکڑنا جانتے ہیںاور حرف انکار کی جرأت رکھتے ہیں۔ پاکستان نے اگر طالبان اور ان کے ہم نوائوں کے سامنے سر نہیں جھکایا تو اس کے دو اسباب ہیں ۔ تمام تر زوال کے باوجود ہمارا تعلیمی نظام آج بھی باشعور ذہن تیار کر رہا ہے۔ پاکستان کا دوسرا اہم سرمایہ ہماری سیاسی روایت ہے۔ ہمارے ہاں عراق، لیبیا ، مصر اور شام کی مثالیں دیتے ہوئے پاکستان کے بارے میں بھی اسی طرح کے خدشات ظاہر کئے جاتے ہیں۔ اس بدشگونی کا اظہار کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی عمل کی روایت ایک صدی سے زیادہ طویل ہے۔ ہمارے بزرگوں نے برطانوی حکمرانوں کے خلاف سیاسی جدوجہد شروع کی تو دنیا بھر کی نوآبادیوں میں اس کا تصور بھی موجود نہیں تھا۔ ہم حسرت موہانی ، ابوالکلام آزاد ، بھگت سنگھ اور سیف الدین کچلو کی روایت کے امین ہیں اور اس روایت کو پاکستان میں باچا خان نے تسلسل بخشا۔ باچا خان کون؟ باچا خان جسے غدارقرار دے کر اٹھارہ برس تک پاکستان میں پابند سلاسل رکھا گیا۔ باچا خان نے ٹھیک سو برس پہلے 1916ء میں پختون بھائیوں کو تعلیم دینے کی جدوجہد شروع کی تھی۔ باچا خان کی تعلیمات کے دو بنیادی نکات تھے، عدم تشدد اور تعلیم۔ عدم تشدد کی تعلیم کا نتیجہ یہ تھا کہ 1930ء میں انگریز نے قصہ خوانی بازار میں پختونوں پر گولی چلائی تو بندوق کو زیور سمجھنے والے پٹھانوں نے سینے پر گولی کھائی مگر جواب میں بندوق نہیںاٹھائی۔ خیبر پختونخوا میں صاحبزادہ عبدالقیوم کو بابائے تعلیم کہا جاتا ہے۔ صاحبزادہ عبدالقیوم کی خدمات میں کلام نہیں تاہم صاحبزادہ عبدالقیوم کی خدمات اسلامیہ کالج پشاور جیسے تعلیمی اداروں کے قیام سے تعلق رکھتی تھیں۔ عبدالغفار خان نے پختونوں کو یہ شعور دیا کہ تعلیم حاصل کئے بغیر وہ رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک کی تہذیب نفسی اور اخلاقی قامت تک نہیں پہنچ سکتے۔ باچا خان قوم کا سچا ہمدرد، انسان دوست اور درویش سیاسی رہنما تھا۔ 1946 ء میں بہار کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے باچا خان نے گاندھی جی کو تیکھے سوالات کی باڑھ پر رکھ لیا تھا۔ سوال اٹھانے کی جرأت اس میں ہوتی ہے جس کے اپنے ہاتھ صاف ہوں۔ باچا خان نے پاکستان میں سیاسی روایت کی بنیاد رکھی۔ اگر سیاست کو حکومت کے کاسہ لیسوں کی فہرست سے الگ کر کے دیکھا جائے تو پاکستان کی سیاسی روایت ایک سیاسی رہنما اور ایک سیاسی جماعت کی دین ہے۔ باچا خان اور نیشنل عوامی پارٹی۔ نیپ ایک سیاسی فکر کا نام تھی۔ دہشت گردوں نے باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کر کے باچا خان کی علمی اور سیاسی روایت پر بیک وقت حملہ کیا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ چارسدہ میں حملہ کس نے کیا؟ حکومت نے بتا دیا ہے کہ کم از کم دو حملہ آوروں کی شناخت ہو چکی ہے ۔ اس انکشاف میں بھی کوئی خبر نہیں کہ حملہ آوروں کے سرحد پار افغانستان کی زمین پر رابطے تھے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ سوات سے فرار ہونے والوں نے افغانستان کے ملحقہ صوبوں کنڑ اور نور ستان میں ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں فرار ہونے والوں کی اکثریت بھی افغانستان میں پڑائو ڈالے ہوئے ہے۔ گوریلا لڑائی محفوظ ٹھکانوں ہی سے لڑی جاتی ہے۔ ویت نام میں لڑنے والے کمبوڈیا میں پناہ لیا کرتے تھے۔ افغان سوویت لڑائی میں مجاہدین کے ٹھکانے پاکستان کی زمین پر تھے۔ بلوچستان میں ہتھیار اٹھانے والوں کے رہنما افغانستان ، انگلینڈ اور سوئٹزر لینڈ میں بیٹھے ہیں اور یہ سوال پوچھنا تو بہرصورت مناسب نہیں کہ گزشتہ برس مری امن مذاکرات میں طالبان کے نمائندے کہاں سے تشریف لائے تھے۔ بنیادی سوال تو یہ ہے کہ چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے چاہتے کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب تحریک طالبان پاکستان کے حلقہ درہ آدم خیل و پشاور کے امیر خلیفہ عمر منصور نے ایک ویڈیو پر دیا ہے۔ خلیفہ ملا عمر منصور صاحب فرماتے ہیں کہ اب ہم پاکستان کے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر حملے کریں گے کیونکہ ان تعلیمی اداروں سے پاکستان کے سیاسی رہنما تیار ہوتے ہیں ۔ وکیل اور جج تعلیم پاتے ہیں اور یہاں پاکستان کی فوج کے افسر تعلیم پاتے ہیں۔ گویا طالبان نے پاکستان کی پارلیمنٹ ، عدلیہ اور فوج کو اپنا دشمن قرار دیتے ہوئے ان اداروں کی بنیاد پر حملے کا اعلان کیا ہے۔ چنانچہ طے ہوا کہ تحریک طالبان پاکستان میں پارلیمنٹ ، عدلیہ اور فوج کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔ نام نہاد خلیفہ ملا عمر منصور صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے اپنے ان خیر خواہوں کی جیب کاٹ لی ہے جو چارسدہ حملے کو بھارت اور امریکہ کی دہلیز پر رکھنا چاہتے تھے۔ ذرائع ابلاغ میں بیٹھے طالبان کے ان عذرخواہوں کا معاملہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ۔ ایک محترم صحافی نے چارسدہ حملے کے دوسرے ہی روز ایک مبسوط مقالہ اس حملے کی عذر خواہی میں سپرد قلم کیا ہے۔ جنوری 2014ء میں طالبان نے ذرائع ابلاغ کے خلاف ایک طویل فتویٰ جاری کیا تو ہمارے اسی مہربان دانشور نے ٹیلی وژن پر بیٹھ کر اس فتوے کی تعریف کی تھی۔ یہ وہی ’برادران یوسف‘ ہیں جنہوں نے 2014ء میں کالم لکھ لکھ کر طالبان کو تجاویز دی تھیں کہ پاکستان کی ریاست سے مذاکرات کرتے ہوئے کن مطالبات کی مدد سے پاکستان کی ریاست کو مفلوج کیا جائے۔
واضح رہے کہ طالبان کے مذکورہ فتوے کے بعد پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں دجالی میڈیا کی اصطلاح نے فروغ پایا۔ گن جائیے ان صحافیوں کے نام جو تواتر سے ذرائع ابلاغ کے لئے ’دجالی‘ کا اسم صفت استعمال کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد سے طالبان کے یہ بعض خفتہ ساتھی ہر تحریر میں آپریشن ضرب عضب اور فوج کی حمایت کا اشارہ دیتے ہیں۔ یہ مہربان نہایت سہولت سے یہ نکتہ فراموش کر دیتے ہیں کہ طالبان تو اپنی ہر تحریر اور تقریر میں پاکستانی فوج کی کھلے عام تکفیر کرتے ہیں۔ پاکستان کی فوج کا حقیقی خیر خواہ اور حامی وہی ہو سکتا ہے جو پاکستانی فوج کی توہین کرنے والوں کو اپنا دشمن قرار دے۔ تقویٰ کی صحافت کرنے والوں میں ہمت ہے تو ہاتھ کھڑا کریں کہ وہ طالبان کو پاکستان کے دشمن سمجھتے ہیں۔
ان کے خیالات کو پاکستان کی مخالفت پر محمول کرتے ہیں اور ان کے قابل نفرین افعال کی مذمت کرتے ہیں۔ مگر نہیں صاحب۔ ان مہربانوں کو بیانیہ بچانے کی فکر ہے۔ یہ عنصر جس بیانیے کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں وہ بیانیہ دراصل ان مفروضات کا مجموعہ ہے جن سے طالبان کی سوچ نے جنم لیا ہے۔
ہمارے مہربان ایسے کاٹھ کے پتلے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کی پیش گوئیاں لکھتے ہوئے یہ خواہش بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اس بیانئے پر آنچ نہ آئے جس نے طالبان کو جنم دیا ہے اور ہمارے بچوں کا لہو بہایا ہے۔ یہ ولایت پلٹ سیانے ہیں۔ خیال رہے کہ ہم نے آمریت کے طویل برسوں میں ولایت کے کئی دعوے داروں کو خوشامد کی راہ سلوک پر جوتیاں چٹخاتے دیکھ رکھا ہے۔
ہماری سیاسی روایت نے آمریت کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا تو آمریت کے حدی خواں کیا بیچتے ہیں؟ پاکستان کے عوام اور ہماری قومی قیادت طالبان کو بھی شکست دے گی اور ان کے بیانئے کو بھی نیست و نابود کرے گی … اس بیانئے کے حدی خواہوں کا تو ذکر ہی کیا؟ یہ ولایت پلٹ سیانے کسی اور روپ میں، دریا کے کسی اور کنارے پر، مفادات کی مچھلیاں پکڑا کریں گے۔