• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پٹیشنرز منہ کی کھائیں اور استعفیٰ وزیراعظم پاکستان دیں،سعدرفیق

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں پٹیشنرمنہ کی کھائیں اور استعفٰی وزیراعظم پاکستان دیں ، ماہر قانون جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا کہ سپریم کورٹ 184/3کے تحت وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتی، پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا کہ پاناما پر پی ٹی آئی کی جدوجہد عدالتی، پارلیمانی اور عوامی ہے، ہمارے سامنے تینوں آپشنز موجود ہیں،وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے مزید کہا کہ وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کرنے والوں میں تین افراد تو پاناما کیس میں پٹیشنرز تھے جو سپریم کورٹ سے منہ کی کھا کر نکلے ہیں، یہ عجیب بات ہے کہ منہ کی کھائیں یہ اور استعفیٰ وزیراعظم پاکستان دیں، اعتزاز احسن کی جلن اور آصف زرداری کی ڈینگیں قوم کے سامنے ہے، آصف زرداری اور پیپلز پارٹی تو نہ سپریم کورٹ کے پراسس میں گئے اور نہ ہی اسے مانا ہے تو ان کے کہنے پر وزیراعظم کیوں استعفیٰ دیں، پیپلز پارٹی ، پی ٹی آئی او ر جماعت اسلامی اسمبلی میں ایک تہائی نشستیں بھی نہیں رکھتی ہیں وزیراعظم ان کے کہنے پر کیسے استعفیٰ دیدیں، یہ عجیب بات ہے کہ ہم سپریم کورٹ میں مقدمہ جیت جائیں لیکن پھر بھی استعفیٰ دیدیں۔ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے دو ججوں کے اختلافی نوٹ پر ن لیگ کو تحفظات ہیں، ان کی شروع دن سے ہی اس طرح کے بیانات آرہے تھے لیکن ہم چپ ہیں ، ہم ان پر تنقید نہیں کرتے اور نہ ہی کریں گے، سپریم کورٹ کے پانچوں ججوں نے شریف خاندان کے چھ لوگوں کو کلیئر کردیا ہے، عدالت نے اسحاق ڈار، کیپٹن صفدر اور مریم نواز کو ہٹا کر باقی تین لوگوں سے تحقیقات کیلئے کہا ہے تو وزیراعظم کیوں آصف زرداری، عمران خان اور شیخ رشید کے کہنے پر استعفیٰ دیں۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سپریم کورٹ کو پاناما کیس کی سماعت کے دوران ایسا ماحول مہیا نہیں کیا گیا جس میں وہ آزادانہ فیصلہ کرتے، ان جوکروں نے ایک عدالت شاہراہ دستور پر لگائی، کچھ جوکرز ٹی وی چینلز میں بیٹھ کر یہی کام کررہے تھے پتا نہیں کہاں سے وہ اس چیز کے پیسے لیتے ہیں، کچھ ٹی وی چینلز اس کام کیلئے لگے ہوئے ہیں جو باہر جعلی ڈگریوں میں پکڑے جاتے ہیں اور یہاں آکر قوم کو اخلاقیات کا بھاشن دیتے ہیں، ایک ماحول بنایا گیا تھا اور پوری سازش تھی، ایسا ماحول نہیں تھا کہ سپریم کورٹ آزادانہ کام کرسکتا، اس ماحول میں قابل احترام جج حضرات نے جو فیصلہ دیا وہ آسان کام نہیں تھا، جج صاحبان کی اپنی حساسیت ہوتی ہے وہ یہ افورڈ نہیں کرتے کہ ان کیخلاف کوئی نعرے بازی کرے، عدالت کو دباؤ میں لانے کیلئے پاکستان کے بال ٹھاکرے عمران خان اور اس کے ساتھی جوکروں نے بے تحاشا زور لگایا۔سعد رفیق کا کہنا تھا کہ عدالتوں کے باہر بندر تماشا عمران خان، شیخ رشید اور سراج الحق نے شروع کیا تھا، پہلے جواب دینے کیلئے ہماری بی ٹیم جاتی تھی لیکن جب عوام کا ہم پر دباؤ آیا تو ہمیں وہاں جانا پڑا، ہمیں پتا ہے کون سی مقدس گائے کیا کرتی ہے، مقدس گائے بھی کوئی نہیں ہے، یہ نہیں ہوگا کہ بغیر ثبوت کے ہماری پگڑی کو اچھال کر مٹی میں ملایا جائے اور ہم سب گونگے بن کر بیٹھے رہیں، سیاسی جوکرز قابل احترام عدالت کی آبزرویشنز کے ساتھ کھلواڑ کرتے تھے انہیں روکنے والا کوئی نہیں تھا مجھے روکنے والا کوئی کس طرح ہوگا، اگر کوئی قابل احترام جج ریمارکس دیدیتا ہے جسے عمران خان ہمارا مذاق اڑانے کیلئے استعمال کریں گے تو جواب آئے گاکیونکہ ہم گونگے نہیں ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ تمام فریقین نے عدالت کا فیصلہ ماننے کی یقین دہانی کروائی تھی تو اب یہ فیصلہ ماننا چاہئے، ہمیں بھی بعض چیزوں پر اعتراضات ہیں مگر ہم نے کوئی تبصرہ نہیں کیا، اعتزاز احسن مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے بارے میں جھوٹ بول رہے ہیں کہ وہ نواز شریف کو رپورٹ کریں گے، سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کیلئے اداروں کے سربراہ ہمیں نام بھیجیں ہم فیصلہ کریں گے جبکہ مانیٹرنگ کیلئے بھی سپریم کورٹ کا بنچ بنایا جارہا ہے، جے آئی ٹی کے معاملہ میں تمام اختیار عدالت کے پاس ہوگا، اپوزیشن پاناما کیس فیصلے کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کرے، نواز شریف قانون پر چلنے والے آدمی ہیں، وزیراعظم کے سپریم کورٹ کی بنائی گئی جے آئی ٹی کے سامنے جانے میں کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ دنیا میں یہ روایت موجود ہے اور یہ اچھی اور اعلیٰ ظرفی کی بات ہے۔پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا کہ پاناما پر پی ٹی آئی کی جدوجہد عدالتی، پارلیمانی اور عوامی ہے، ہمارے سامنے تینوں آپشنز موجود ہیں، پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہونے کے ناطے سیاسی راستہ اختیار کرے گی، عدالتی معاملہ کو خوش آمدید کہا اور مکمل تعاون کررہے ہیں، جے آئی ٹی پر ہمارا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے ہوتے ہوئے ان کے ماتحت ادارے ان سے تحقیقات کیسے کریں گے، عدالت نے خود فیصلے میں لکھا کہ نیب کے چیئرمین کام نہیں کرپائے، ایف آئی اور ایس ای سی پی کے بارے میں بھی عدالت کے واضح کمنٹس ہیں، اس فیصلے کے باوجود عدالت کی طرف سے انہی اداروں کے افسران پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی جارہی ہے۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا استعفیٰ قانونی نہیں اخلاقی اور سیاسی ضرورت ہے، جمہوریت میں اخلاقی اقدار بہت اہم ہوتی ہیں جس سے حکومت ناآشنا نظر آرہی ہے، اخلاقی اقدار کے مطابق تو وزیراعظم کو اب استعفیٰ دیدینا چاہئے، جن اداروں میں تعیناتی، ترقی اور تنزلی وزیراعظم کے ہاتھ میں ہے نواز شریف ان اداروں پر تحقیقات کے دوران اثر انداز ہوسکتے ہیں، نواز شریف وزیراعظم کے عہدے سے الگ ہوں اور اپنی پارٹی سے نیا وزیراعظم منتخب کر کے تحقیقات کا سامنا کریں یہی بہترین آپشن ہے، نواز شریف وزیراعظم کے عہدے پر نہیں ہوں گے تو اداروں کے افسران کوکام کرنے کی آزادی ملے گی۔ فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ جو کرسکتی تھی وہ اس نے کیا ہے، جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار نے وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ لکھ کر عدلیہ اور قانون کی حاکمیت کی نئی تاریخ رقم کی ہے، پاکستان کے کسی شخص کو ابہام نہیں کہ قطری خط جعلی ہے اور لندن فلیٹس وزیراعظم اور ان کی فیملی کے ہیں۔ ماہر قانون جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا کہ سپریم کورٹ 184/3کے تحت وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتی، یہی بات جسٹس اعجازافضل نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہی ہے، جج جب کوئی فیصلہ کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ وہ قانون کے مطابق کیا ہے یا نہیں کیا، آرٹیکل 184/3 سپریم کورٹ کا ایسا اختیار ہے جس کی کوئی حدود نہیں ہے، اگر تین جج نواز شریف کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ دیتے تو یقیناً تاریخ رقم ہوجاتی ہے، اگر ایسا ہوجاتا توہر نئے وزیراعظم کیخلاف اسی بنیاد پر پٹیشن دائر ہوجاتی جو کافی متنازع صورتحال ہوجاتی ۔ انہوں نے کہا کہ اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ شریف خاندان نے ایمانداری سے کام نہیں کیا تو شاید تین اکثریتی ججز بھی باقی دو ججز کی رائے سے متفق ہوجائیں، پاناما کیس پر سپریم کورٹ کا موجودہ بنچ اپنی جگہ قائم رہے گا اس نے ابھی اپنا کام مکمل نہیں کیا ہے، جے آئی ٹی چونکہ ہر دو ہفتے بعد سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرے گا ، چونکہ یہ ممکن نہیں کہ پانچوں ججز ہر مرتبہ بیٹھ کر اسے دیکھیں اس لئے انہوں نے اسپیشل بنچ بنانے کیلئے کہا ہے جس کے سامنے صرف جے آئی ٹی کی رپورٹس پیش ہوں اور وہ اسے مانیٹر کرے۔ جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا کہ اگر شریف خاندان قطری شہزادے کے ساتھ کوئی بزنس کررہا تھا تو اس میں کچھ نہ کچھ کاغذی کارروائی، بینک اکاؤنٹس، ٹرانزیکشنز اور میٹنگز ہوتی ہیں، وہ سب چیزیں سمن کی جائیں گی اگریہ پیش نہ کی جاسکیں تو یقیناً عدالت اس نتیجے پر پہنچے گی کہ شریف خاندان نے قطری خط صرف خود کو بچانے کیلئے پیش کیا، جس طرح ملائیشیا میں وزیراعظم نے سعودی عرب سے ڈونیشن کو پیش کیا تھا، اگر اس طرح کی بات ہوگی تو ججوں کے دماغ میں شبہات پیدا ہوجائیں گے، اگر قطری شہزادے آکر اپنے خط اور پیسے دینے کا اقرار کرلیتا ہے تب بھی صرف یہ چیز سپریم کورٹ کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا، سپریم کورٹ یہی کہے گی کہ اگر آپ دونوں بزنس پارٹنرز تھے تو آپ کے پاس کچھ نہ کچھ دستاویزات تو ہوں گی کہ آپ لوگ اتنے بڑے بزنس میں پارٹنر تھے۔ 
تازہ ترین