• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر میں کئی کالمز لکھ چکا ہوں تاکہ قومی اہمیت کے اس منصوبے کے بارے میں قارئین کو آگاہی ہوسکے۔ میں نے اپنے کالمز میں بتایا تھا کہ یہ منصوبہ اپنی تکمیل کے بعد پاکستان کی معاشی تقدیر بدل سکتا ہے جبکہ معاشی پنڈتوں نے اسے ’’گیم چینجر‘‘ قرار دیا ہے اور پوری دنیا کی نظریں اس پر مرکوز ہیں۔ چین راہداری کی تعمیر کے بعد گوادر پورٹ کے ذریعے بحیرہ عرب میں اتر جائے گا جس سے چین کو یورپ، مشرق وسطیٰ بالخصوص خلیجی ممالک متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب، کویت، عراق اور ایران تک رسائی مل جائے گی۔ اس منصوبے میں چین کے اپنے مفادات بھی ہیں۔ چین اپنا 80% تیل خلیج سے بحری جہازوں کے ذریعے بحیرہ ہند سے بحرالکاہل اور بیجنگ تک 13 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے حاصل کرتا ہے لیکن گوادر پورٹ کے ذریعے یہ تیل اور تجارتی اشیاء صرف 6 ہزار کلومیٹر طے کرکے ایک تہائی وقت اور لاگت میں بیجنگ پہنچ سکتی ہیں جس سے چین کو تجارت میں اربوں ڈالر کی بچت ہوگی۔ چین نے اپنی معاشی پالیسی کے 4اہداف مقرر کئے ہیں جس میں ایشیاء اور یورپ میں علاقائی تجارت میں اضافہ، ون بیلٹ ون روٹ کا قیام، آزادانہ تجارت کا فروغ اور عوامی باہمی رابطے شامل ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان ان چاروں اہداف پر پورا اترتا ہے جس کی وجہ سے چین نے پاکستان میں سی پیک میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی۔
سی پیک کا اہم منصوبہ گوادر پورٹ دنیا کی تیسری گہری ترین بندرگاہ ہوگی جس سے مشرق وسطیٰ، مغربی چین، ایران اور روس بھی فائدہ اٹھاسکیں گے اور اس طرح بحیرہ عرب میںبھارت کی چوہدراہٹ ختم ہوجائے گی جس کی وجہ سے بھارت پہلے دن سے بلوچوں کو احساس محرومی کی آڑ میں انہیں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں استعمال کرکے اور پاکستان کے معاشی حب کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے ذریعے بدامنی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ یہ منصوبے پائے تکمیل تک نہ پہنچ سکیں۔ پاکستان کی بعض سیاسی جماعتیں بھی نواز حکومت کو اس گیم چینجر منصوبے سے مقبولیت حاصل کرنے سے روکنے کیلئے راہداری کے روٹ کو متنازع بناکر منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کررہی ہیں تاکہ اس منصوبے کو بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متنازع بنادیا جائے۔ پاکستان چین راہداری کے اس اہم منصوبے کو ہمیں تاریخی اور عالمی پس منظر میں دیکھنا ہوگا۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے جرمنی نے برلن سے بغداد تک 4423 کلومیٹر طویل ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ جنگ کی صورت میں ریل کے ذریعے عراق و شام کے تیل تک رسائی ہوسکے۔ جرمنی کے اس منصوبے کی بو پاکر فرانس، امریکہ، روس، برطانیہ اور جاپان نے اس روٹ کو ناکام بنانے کیلئے سازشوں کا جال بننا شروع کردیا اور بالاخر جرمنی کے اس ریل منصوبے نے دنیا کی دو بڑی طاقتوں جرمنی اور فرانس میں عالمی جنگ چھڑوادی جس میں فرانس کے ساتھ امریکہ، برطانیہ، روس، اٹلی جبکہ جرمنی کے ساتھ آسٹریلیا، ترکی اور بلغاریہ شامل تھے۔ یہ عالمی طاقتیں اگر جرمنی کے ریلوے منصوبے کو روکنے کیلئے عالمی جنگ مسلط کرسکتی ہیں تو پاک چین معاشی راہداری کا منصوبہ جس میں امریکہ، بھارت، روس، ایران کے پاکستان اور چین کے ساتھ معاشی مفادات کا تصادم ہے، ایک اور جنگ کو جنم دے سکتا ہے۔ ان حالات میں ہمیں ملک و بیرون ملک موجود پاکستان مخالف عناصر کو ایسا کوئی موقع فراہم نہیں کرنا چاہئے کہ وہ منصوبے میں رکاوٹ کا سبب بنیں۔
کچھ سیاسی جماعتوں اور خیبرپختونخوااور بلوچستان کے صوبوں کے راہداری کے مغربی روٹ پر اختلافات اور بیانات چینی سرمایہ کاروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو منفی پیغام دے رہے ہیں۔ پاکستان کے ایک سیاسی رہنما جن کی خیبرپختوا میں گنتی کی نشستیں ہیں، نے واشنگٹن کے دورے کے بعد یہ بیان دیا کہ ہم نے کالا باغ ڈیم بننے نہیں دیا اور ہم راہداری کے اس منصوبے کو بھی نہیں بننے دیں گے۔ میرے خیال میں اس طرح کے بیانات کوئی بھی محب وطن پاکستانی نہیں دے سکتا۔ بھارتی اخبار کے مطابق بھارت نے 60 کروڑ ڈالر سی پیک کو ناکام بنانے کیلئے مختص کئے ہیں۔ اسلام آباد میں ہونے والی حالیہ آل پارٹیز کانفرنس میں سوائے چند مقررین کے، بیشتر نے سی پیک کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کیلئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس میں گوادر پورٹ کو بلوچستان حکومت کی ملکیت میں دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اگر وفاقی حکومت بلوچستان حکومت کا یہ مطالبہ مان لیتی ہے تو کل سندھ حکومت وفاق سے کراچی اور بن قاسم پورٹس کی ملکیت کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق پورٹ اور شپنگ وفاق کا سبجیکٹ ہے اور رہے گا۔ حکومت کو ایسے تمام عناصر جنہوں نے پہلے اس قومی منصوبے کی حمایت کی تھی لیکن آج کسی کو خوش کرنے کیلئے اسے متنازع بنانے کی کوشش کررہے ہیں، کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے۔ وزیراعظم نواز شریف کے زیر صدارت آل پارٹیز کانفرنس میں اقتصادی راہداری منصوبے کی مکمل حمایت کی گئی ہے اور راہداری میں انڈسٹریل پارکس اور اسپیشل اکنامک زونز صوبوں کی مشاورت سے بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کیلئے وزیراعظم سمیت 11 رکنی نگراں کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شامل ہیں۔ کمیٹی کا اجلاس ہر 3 ماہ بعد ہوا کرے گا۔ راہداری کے مغربی روٹ کو تیز رفتاری سے 15 جولائی 2018ء تک مکمل کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ پاکستان کی ملک دوست سیاسی و عسکری قیادت آج ایک پیج پر ہے اور ملک دشمن عناصر کی ہماری سیاسی اور عسکری قیادت میں اختلافات پیدا کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں صوبوں میں سرمایہ کاری کے حساب سے سندھ میں 12.33 ارب ڈالر، پنجاب میں 9 ارب ڈالر، بلوچستان میں 7.46 ارب ڈالر، خیبرپختونخواہ میں 1.8 ارب ڈالر اور 3.8 ارب ڈالر آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کے منصوبوں میں سرمایہ کاری ہوگی۔ اس طرح اقتصادی راہداری کی مجموعی سرمایہ کاری میں 36% حصہ سندھ، 26% حصہ پنجاب، 22% حصہ بلوچستان، 11% حصہ آزاد کشمیر گلگت بلتستان اور 5% حصہ خیبرپختوا کا بنتا ہے۔ سی پیک کے مجموعی 46 ارب ڈالر کے منصوبوں میں 33.8 ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں پر خرچ ہوں گے جو خالصتاً نجی سرمایہ کاری کی صورت میں ہوگی اور یہ منصوبے قابل عمل جگہوں پر لگائے جائیں گے۔ توانائی کے ان Early Harvest منصوبوں سے مارچ 2018ء تک 10,400 میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکے گی۔ تیکنیکی بنیادوں پر کوئلے اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے سندھ میں اور پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے خیبرپختواہ میں قابل عمل ہیں جبکہ پنجاب شمسی توانائی کے پروجیکٹس کیلئے موزوں ہے لہٰذا خیبرپختوا اور بلوچستان کی یہ شکایت کہ توانائی کے بڑے منصوبے صرف سندھ اور پنجاب میں لگائے جارہے ہیں، بھی حقائق کے منافی ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں گوادر، حبکو اور گڈانی پاور پلانٹس قابل عمل ہیں جبکہ گوادر پورٹ معاشی راہداری منصوبے میں نہایت اہمیت کی حامل ہے جو گیٹ وے کی حیثیت رکھتی ہے۔میں نے آج کے کالم میں اس اہم قومی منصوبے جسے آغاز میں ہی متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، پر وضاحت کی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل سے کن عالمی طاقتوں کا پاکستان اور چین کے مفادات سے معاشی تصادم ممکن ہے جس کیلئے یہ طاقتیں اندرون و بیرون ملک وطن دشمن عناصر کو استعمال کرکے قومی اہمیت کے اس اہم منصوبے کو متنازع بنانے کی کوشش کررہی ہیں تاکہ یہ منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی تنازعات کا شکار ہوجائے۔ خیبرپختوا، بلوچستان کی حکومتوں اور سیاسی لیڈروں سے درخواست ہے کہ وہ سی پیک منصوبے کے حوالے سے قائم کردہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت 11اراکین پر مشتمل کمیٹی میں مصالحتی عمل کے ذریعے اپنے تحفظات دور کریں اور ملکی مفاد کے اس اہم منصوبے کو متنازع ہونے سے بچائیں ورنہ آنے والی نسلیں انہیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
تازہ ترین