• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بجا طور پر ریمارکس دیئے ہیں کہ ججز اختلافی نوٹ دیتے رہتے ہیں مگر دنیا میں کہیں بھی ان پر اتنا شور نہیں ہوتا جتنا کہ ہمارے ہاں پاناما کیس میں ایسے نوٹس پر ہورہاہے۔ہر جگہ کورٹ ججمنٹ وہی ہوتی ہے جو کہ اکثریتی ججوں نے لکھی ہو اور اس پر ہی عمل درآمد ہوتا ہے مگر اس مقدمے میں اختلافی نوٹس پر اتنا شور و غوغا مچا نے کا مقصد اصل فیصلے کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کرنا ہے۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ٗ پیپلزپارٹی اور کچھ دوسرے عناصر اس مہم میں سرفہرست ہیں۔ تاہم وہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے چاہے کچھ بھی کر لیں عملدرآمد تو صرف کورٹ ججمنٹ پر ہی ہونا ہے۔ ان کے پسندیدہ فیصلے وہ ہیں جو کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کے اختلافی نوٹس ہیں۔ وہ اکثریتی فیصلہ جو کہ جسٹس اعجاز افضل خان جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالحسن نے دیا ہے اس پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے۔ یہ مجارٹی ججمنٹ جو کہ جسٹس اعجاز افضل خان نے لکھی ہے کہیں بھی وزیراعظم کی نہ تو سرزنش کرتی ہے اور نہ ہی انہیں ’’گلٹی‘‘ قرار دیتی ہے ہاں البتہ یہ ضرور کہا گیا ہے کہ مدعی اور مدعالیہ نے جو بھی غیر تصدیق شدہ دستاویزات پیش کی ہیں ان پر فیصلہ نہیں دیا جاسکتا اور مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو کہ وزیراعظم نواز شریف پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو کوٹ کر کے تنقید کر رہے ہیں انہوں نے یہ ججمنٹ پڑھی ہی نہیں ہے۔ اس فیصلے میں دونوں اطراف کی تمام استدعائیں اور دلائل لکھ کر 6سوالات بنائے گئے اور ان میں سے ہر ایک پر جج صاحب نے اپنی رائے دی اور کسی ایک جواب میں بھی وزیراعظم یا ان کے خاندان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ پٹیشنرز کے تمام پوائنٹس کو مسترد کر دیا گیا جس میں یہ بھی شامل ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق نواز شریف کو فوراً ڈس کولیفائی کر کے عہدے سے برطرف نہیں کیا جا سکتا۔
اپنے پہلے ردعمل میں چیئرمین پی ٹی آئی نے پاناما کیس میں فیصلے کا خیر مقدم کیا مگر بعد میں اس میں کیڑے نکالنے شروع کر دیئے اور ان کا سب سے بڑا نشانہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنی جس کی تشکیل پر نہ صرف اکثریتی فیصلے کے 3ججز صاحبان نے بلکہ اقلیتی فیصلہ لکھنے والے 2جسٹس صاحبان نے بھی دستخط کئے یعنی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ متفقہ ہے۔اس 6رکنی ٹیم میں اسٹیٹ بینک ، نیب ، ایس ای سی پی اور ایف آئی اے کے ایک ایک نمائندے کے علاوہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کا ایک ایک سینئر افسر بھی شامل ہو گا۔کسی حد تک چاروں سویلین ادارے منی ٹریل وغیرہ کی تفتیش میں کچھ مہارت رکھتے ہیں اگرچہ وہ سب پہلے کہہ چکے ہیں کہ آف شور کمپنیاں اور بیرون ملک جائیداد کے بارے میں وہ زیادہ انویسٹی گیشن نہیں کر سکتے۔ تاہم آئی ایس آئی اور ایم آئی کا تو منی لانڈرنگ جیسے جرائم کے بارے میں کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی مہارت۔ یہ اہم ادارے جاسوسی، انٹیلی جنس گیدرنگ اور نیشنل سیکورٹی کے معاملات میں تو بہت ماہر ہیں۔ ان کی جے آئی ٹی میں شمولیت کافی حد تک حیران کن ہے اور اگر جاسوسی کے اداروں کو جے آئی ٹی کا حصہ بنانا ہی تھا تو پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کو شامل کیوں نہیں کیا گیا۔ تاہم یہ فیصلہ عدالت عظمیٰ کے پانچ ججوں نے کیا ہے نہ کہ وزیراعظم یا کسی دوسری ایگزیکٹو اتھارٹی نے۔لہذا کوئی مانے یا نہ مانے اور کوئی شور مچائے یا نہ مچائے جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق کام کرنا ہے۔اس پر تنقید دراصل عدالت عظمیٰ پر تنقید ہے جو کہ توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔ ابھی تک تو سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس نہیں لیا کہ اس کے فیصلے کو مذاق بنانے کی کیوں کوشش کی جارہی ہے۔
اگر پچھلے چار سال کے دوران عمران خان کے لگائے ہوئے بے شمار الزامات کی لسٹ بنائی جائے تو و ہ اب تک ہاف سنچری اسکور کر چکے ہیں۔ کسی ایک الزام کو بھی وہ کبھی عدالت میں ثابت نہیں کرسکے اور جب کوئی دوسرا فریق عدالت میں ان پر ہتک عزت کا دعویٰ کرے تو وہ اپنا جواب داخل کرنے سے بھاگتے رہتے ہیں۔ پاناما کیس میں فیصلہ آنے کے بعد اب ان کی ساری کوشش ہے کہ جے آئی ٹی کو ہر طریقے سے اسکینڈلائز کیا جائے تاکہ اسے دبائو میں لاکر اپنی مرضی کی رپورٹ اس سے بنوا لی جائے۔ ان کا تازہ ترین الزام کہ انہیں میاں شہبازشریف اور حمزہ شریف کے کسی قریبی بزنس مین نے 10ارب کی پیشکش کی کہ وہ پاناما کیس سے دستبردار ہو جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں اتنی بڑی پیشکش ہو سکتی ہے تو جے آئی ٹی کے ممبرز کو کیا کیا آفرز نہیں ہوں گی۔ عمران خان اس بزنس مین کا نام بتانے کو تیار نہیں ہیں یہ کہتے ہوئے کہ وہ شریف فیملی کے زیر عتاب آجائے گا۔ انہیں چاہئے کہ وہ اس کاروباری شخصیت کا نام ضرور آشکار کریں اور اسے بھی بطور گواہ پیش کریں تاکہ ان کا دعویٰ سچ یا جھوٹ ثابت ہو سکے۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا سیاستدان آیا ہو جو کہ اتنی غیر ذمہ داری سے اپنے مخالفین پر بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کرتا رہے اور جب ثابت کرنے کی بات آئے تو پھر یہ کہہ دے کہ یہ تو اس کا سیاسی بیان ہے۔جوں جوں جے آئی ٹی کام کرے گی چیئرمین پی ٹی آئی اس طرح کے مزید بے شمار الزامات لگاتے رہیں گے اور یہی ان کا وطیرہ اور ا سٹائل ہے مقصد یہ ہے کہ اس کے ممبرز کو اتنا بدنام کر دیا جائے کہ ان کی رپورٹ کو متنازع بنا دیا جائے۔ جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے ماتحت کام نہیں کرنا بلکہ اس کی سپر وژن عدالت عظمیٰ کا ایک اسپیشل بنچ کرے گا جہاں یہ اپنی رپورٹس فائل کرتی رہے گی۔ جے آئی ٹی کو 60دن کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ اپنی تحقیقات مکمل کرے پھر اسپیشل بنچ اس کی روشنی میں کوئی فیصلہ کرے گا۔ کچھ وکلا کا بجا طور پر کہنا ہے کہ پہلے بھی پی ٹی آئی اور میڈیا کے کچھ حلقوں کے لگا تار کمپین کی وجہ سے کچھ جج صاحبان دبائو میں آگئے اور انتہائی سخت آبزرویشنز اور ریمارکس لکھ دیئے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ جو کام سپریم کورٹ کا 5رکنی بنچ کئی ماہ کی کارروائی کے دوران نہ کر سکا وہ جے آئی ٹی کے لئے 60روز میں کرنا ناممکن ہے۔ اس تفتیش پر کئی ماہ بلکہ کئی سال لگ سکتے ہیں اورہو سکتا ہے کہ پھر بھی ’’جرم‘‘ ثابت نہ ہو۔ نہ صرف عمران خان بلکہ سابق صدر آصف علی زرداری بھی بڑے بے تاب ہیں کہ وہ کس طرح پاناما کیس میں فیصلے سے زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ اٹھا سکیں تاکہ 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات میں ن لیگ کو شکست دے سکیں۔تاہم اس ججمنٹ کے بعد بھی ہونے والے سروے پر نظر ڈالیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران جماعت اب بھی ان دونوں پارٹیوں سے بہت آگے ہے اور آسانی سے آئندہ انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔بیچاری پیپلزپارٹی بڑے ہاتھ پائوں ماررہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنی حالت زار کو بہتر کرسکیں مگر ابھی تک اسے کامیابی ملتے ہوئے نظر نہیں آرہی۔ آصف زرداری لگا تار کمپین کر رہے ہیں اور نوازشریف اور عمران خان پر حملہ آور ہیں۔

.
تازہ ترین