• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مردان یونیو رسٹی کاواقعہ... غورطلب پہلو تحریر: مولانا محمد حنیف جالندھری ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان

چندروز قبل مردان عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشعال خان نامی ایک طالب علم کے قتل کا واقعہ پیش آیا جس پر مبینہ طور پر یہ الزام لگایاگیا کہ اس نے توہین مذہب اور توہین رسالت کاجرم کیا ہے بلکہ یہ جرم وہ کچھ عرصے سے کررہاتھا جس کی پاداش کے طورپر اشتعال میں آکریونیورسٹی کے طلبہ نے اسے مارمارکر قتل کردیا مرنے سے پہلے اور اس کے بعد اس پر یونیورسٹی کے طلبہ کے تشدد کے مناظرکے ویڈیو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیاپر ساری دنیا نے دیکھے جس سے پاکستان کے عصری تعلیمی اداروں کی ایک بھیانک تصویر دنیاکے سامنے گئی۔اس حقیقت میں دورائے نہیں ہوسکتیں کہ کسی بھی شخص کو محض الزام کی بناء پر سزااورتشدد کانشانہ نہیںبنایا جاسکتا اور اگر الزام ثابت ہوجائے اور ملزم مجرم بن جائے تب بھی اس مجرم کو سزادینے کااختیار صرف ریاست اور حکومت کے پاس ہوتا ہے ،کسی بھی عام آدمی کے لیے شریعت اسلام میں اس کی سرے سے گنجائش نہیں کہ وہ قانون اپنے ہاتھ میں لیکر سزااور جزاکی تنفیذکرے،اس طرح مُلک ومعاشرہ انارکی ورانتشار کی طرف بڑھے گا اور ہرشخص قانون ہاتھ میں لے کر مُلک وملت کی وحدت اور نظم ونسق کے شیرازہ کو بکھیرکررکھ دے گا ،اس لیے مجرم کی سزاکے نفاذکااختیارصرف ریاست اور اس کی عدالت کے پاس ہوتا ہے ،یہی شریعت اور فقہائے اسلام کامتفقہ فتویٰ ہے۔اور اس سلسلے میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے اس لیے یونیورسٹی کے طلبہ کاقانون ہاتھ میں لے کر مشعال خان نامی طالب علم کو قتل کرنا اور اس پر تشدد کرنا قابلِ افسوس بھی ہے اور قابل مذمت بھی ،ہم لاقانونیت کی راہ اختیار کرکے قتل وتشدد کے اس واقعے کی کھل کرمذمت کرتے ہیں۔علماء کرام کے بارے میں یہ منفی تاثرپھیلایاگیا ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات کی پُرجوش مذمت نہیں کرتے ۔علماء نے ہمیشہ اس طرح کے واقعات کی پُرزورمذمت کی ہے ،منبرومحراب سے بھی اور اپنی تحریروں اور فتاویٰ سے بھی اور اپنے عمل سے بھی ۔گذشتہ جمعہ 20؍اپریل2017ء کو چترال کی شاہی مسجدمیںایک شخص نے کھلے عام کھڑے ہوکر نبوت کادعویٰ کیا۔عوام اسے مارنے کی طرف بڑھے تو مسجد کے امام وخطیب نے اسے عوام سے بچاکر قانون کے حوالہ کیا ۔اس لیے اس حوالہ سے علماء کاکردار بالکل بے غبار اور واضح ہے ،مردان یونیورسٹی کے اس افسوس ناک واقعہ کی بھی ہم نے فوری اورپُزورمذمت کی ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ پہلو بھی قابل غورہے اور من حیث القوم ہمیں اس پر سنجیدگی کے ساتھ غورکرنا ہوگا کہ ایک عام آدمی قانون ہاتھ میں کیوں لیتا ہے ،وہ ملزم یامجرم کو خود سزادینے کی طرف کیوں بڑھتا ہے ؟اس طرح کے حساس مذہبی معاملہ میں وہ ریاست اورعدلیہ کے نظام تنفیذ ،سزاوجزا پر اعتماد کیوں نہیں کرتا !...اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماراریاستی اور عدالتی نظام ،اس سلسلے میں سست بھی ہے اور بیرونی قوتوں کے دبائو کاشکار بھی ...توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزام میں جن لوگوں کو گرفتار کیاگیا،ہماری عدالتی تاریخ اس پرگواہ ہے کہ جرم ثابت ہونے کے باوجود انہیں سزانہیں دی گئی،آسیہ مسیح کاکیس سب کے سامنے ہے ،اس کے علاوہ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر اس جرم کاارتکاب کرنے والے بلاگرزبھینسا وغیرہ ناموں سے توہین رسالت کرنے والے ملزموں کو ریاستی اداروں نے پکڑا اور چنددن کے بعد انہیں سزادیئے بغیر چھوڑدیا ،اس سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب شوکت عزیز صاحب کے ریمارکس ساری قوم نے پڑھے اور انہوں نے ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنا درددل قوم کے سامنے رکھا ،وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان صاحب نے بھی میڈیاکے سامنے اپنے ایمانی جذبات کااظہار کیا لیکن مجموعی لحاظ سے قانون پر عمل داری کی صورت حال اطمینان بخش نہیں ،اس لیے اس طرح کے حساس اورجذباتی مذہبی معاملہ میں کئی لوگ ریاستی قانونی راستے کو ترک کرکے خود قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور لاقانونیت کی راہ پر چل پڑتے ہیں ......ہمیں من حیث القوم اس سلسلہ میں اپنے عدالتی نظام کو آزاد،فعال اور قانون پر عمل داری کی صورت حال کو اطمینان بخش بناناہوگا ،بعض لبرل قسم کے دانش ور اس موقع پر توہین رسالت کی سزاوالے قانون کو ختم کرنے کامشورہ دے رہے ہیں حالانکہ اس کاحل قانون کو ختم کرنا نہیں ،قانون پر عمل داری کو شروع کرنا ہے ،اس قانون پر عمل داری کانظام جس قدرفعال اور مضبوط ہوگا ،جس قدر شفاف اور اطمینان بخش ہوگا ،اسی قدر اسی طرح کے واقعات کی پیش بندی ہوسکے گی ۔اس حوالہ سے ایک غورطلب پہلو یہ بھی ہے کہ توہین مذہب اور توہین رسالت کاالزام لگاکرقانون ہاتھ میں لینا جرم ہے اور ،لاقانونیت بھی جرم ہے اور توہین مذہب ورسالت بھی جرم ہے ،دونوں طرح کے مجرموں کو سزاہونی چاہیے اور اس میں پوراپورا عدل وانصاف اور شفافیت ہونی چاہیے لیکن لاقانونیت کے جرم اور اس کی سزاکے نفاذ وضرورت پر تو پورے زوروشور سے بولا جائے اور توہین مذہب ورسالت کے جرم کی سزاکے نفاذ اور ضرورت پر خاموشی اختیار کی جائے اس طرح کے مجرموں کے لیے نرم گوشہ رکھا جائے تویہ بھی ناانصافی اور ظلم ہے ،مغربی میڈیا اور اس سے متاثر ہمارا مُلکی میڈیا اس طرح کی ناانصافی میںمبتلا رہتا ہے ،ناانصافی کی کوکھ سے قانونیت نہیں لاقانونیت جنم لیتی ہے اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ رسالت مآب حضوراکرم ﷺ کے ساتھ عشق ومحبت کی چنگاری ،ایک عام مسلمان کی زندگی کابھی سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ اس کے لیے کسی مدرسہ کے طالب علم ،کسی مسجد کے مولوی ،کسی اسلامی جامعہ کے عالم اور کسی بھی دینی جماعت کاہونا ضروری نہیں ،مردان یونیورسٹی کے اس واقعہ میں جذبات میں آنے والے عام طلبہ تھے اور ایسی سیاسی جماعتوں سے وابستہ تھے جن کے پس منظرمیں مُلا،مسجد ،مدرسہ نظرنہیں آتا ،اگر مسجد ومدرسہ سے متعلق کوئی بندہ اس میں نظرآجاتا تو نہ معلوم ہمارامیڈیامدارس کے خلاف کس قدر آسمان سرپر اٹھاتا !!اس لیے یہ ایک حساس اور بہت حساس موضوع ہے اور اس کے لیے بنایاگیا قانون جس قدر فعال ہوگا اور اس میں جتنی شفافیت ہوگی ،اسی قدر اس طرح کے واقعات کا سدِ باب ہوسکے گا،قانون،توہین رسالت کے جرم کرنے والے کو جہاں نشانِ عبرت بنائے وہاں کسی پر جھوٹا الزام لگانے والوں کو قرارواقعی سزادے اسی سے توہین مذہب ورسالت کے جرم کاراستہ بھی رُکے گا اور غلط اور جھوٹا الزام لگانے کے جرم کاسدِ باب بھی ہوسکے گا۔


.
تازہ ترین