اپنے بیٹے مشال خان، جسے خان عبدالولی خان یونیورسٹی ، مردان میں مشتعل ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کردیا، کی نماز ِ جنازہ کے موقع پر محمد اقبال ٹی وی چینلز کے نمائندگان سے بات کرتے ہوئے بہت پرسکون تھے ۔ وہ اداس ضرور تھے لیکن جذباتی نہیں۔ اُن کے لہجے میں کرب نمایاں تھا لیکن اُن کے الفاظ حوصلہ آمیز تھے ۔ اُن کے بیان سے ایسا لگتا تھاجیسے وہ مجموعی طور پر معاشرے کے بارے میں سوچتے ہوئے اپنے ذاتی سانحے کو بھولنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ صاحبان ِ اقتدار واختیار کویہ بات یاد دلا کر آگے بڑھنا چاہتے تھے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ مل کر امن اور سکون سے رہ سکیں۔
مشال خان کے والد محمد اقبال ایک شاعر ہیں، چنانچہ وہ اقبال شاعر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ اپنی پشتو شاعر ی اور دیگر شعرا کا کلام پڑھنے کا شغف رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ جس روز ضلع صوابی کے گائوں زائدہ(Zaida)میں مشال خان کی تدفین ہورہی تھی ، اقبال شاعر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنے خیالات کے اظہار او ر تبصرے کے دوران اشعار کا برمحل استعمال کررہے تھے ۔ اُنھوںنے مرزا غالب کے لافانی اردو اشعار کا سہار ا لے کر بتایا کہ کس طرح اُن کے بیٹے کو توہین کا الزام لگا کر بے رحم طریقے سے ہلاک کردیا گیا ۔ اپنی سادہ سی شکل و شبہات سے اقبال شاعر فن اور ادب کے دلدادہ دکھائی نہیں دیتے ، لیکن اُن کی باتیں سنیں تو پتہ چلتاہے کہ وہ شعری اور نثری ادب کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں۔ وہ معاشرے کے سماجی ناہمواری اور ناانصافی کے معروضات کا بھی گہرافہم رکھتے ہیں۔ وہ خود کو ایک پرامن انسان اور عدم تشدد کے فلسفے کا پیروکار قرار دیتے ہیں، چنانچہ وہ کسی سے انتقام نہیں چاہتے تھے ۔ اس کی بجائے اُنھوں نے ریاست ِ پاکستان ملک میں قانونی کی حکمرانی قائم کرنے کی اپیل کی تاکہ لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر محض شکوک و شبہات کی بنا کر کسی کی جان نہ لے لیں۔
اقبال شاعر نے بہت مشکل سوالات کے بھی معقول جوابات دئیے ۔ اُنھوںنے کہا کہ سینئر پولیس حکام نے اُن سے پوچھا کہ کیا اُنہیں مشال قتل کیس میں پولیس کی تحقیقات پر کچھ تحفظات ہیں تو اُنہیں بتائیں۔ اُنھوںنے کہا کہ اُنھوں نے پولیس کو بتادیا ہے کہ وہ جانتے ہیںکہ مشال کو کس نے قتل کیا اور نہ ہی وہ کسی پر الزام عائد کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے اس واقعہ میں ملوث افراد کی شناخت کرسکتے ہیں۔ جب پوچھا کہ اُن کے بیٹے کے قتل کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے تو اقبال شاعر نے فلسفیانہ انداز میں نام لئے بغیر کچھ طاقتور افراد اور اداروں کی طرف اشارہ کیا ۔ اُن کا کہنا تھا کہ مشتعل ہجوم کو نہ روکنے کی ذمہ داری مقامی ناظم، نظام ِ تعلیم، قانون کی کمزوری اور سماجی انتشارپر عائد ہوتی ہے ۔ اُن کے نزدیک پاکستانی معاشرہ گناہوں سے بھرے ہوئے جوہڑ کی مانندہے جس میں سب غرق ہوچکے ہیں۔ شاید ہی کسی کا سر اس گندے اور آلودہ پانی سے باہر ہو۔ یہ استعارہ پاکستانی معاشرے کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے ۔
اس موقع پر اقبال شاعر نے اپنے دلائل کو تقویت دینے کے لئے اپنی شاعری کے بھی اقتباسات پیش کیے ۔ اُنھوں نے افغان فاتح سردار، احمد شاہ ابدالی کا بھی ذکر کرتے ہوئے اُنہیں پکارا کہ وہ پختوں کی حالت ِ زار کو دیکھیں۔ اُن کا موقف تھا کہ جنگ اور تشدد کے ذریعے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا، اس لئے محبت اور مذاکرات کی راہ اختیار کرنی چاہیے ۔ جب اُ ن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ انصاف ملنے کی امید رکھتے ہیں تو اقبال شاعر نے کہا کہ عام طو رپر پاکستان میں انصاف نہیں ملتا ۔ اُن کا کہنا تھا کہ غریب افراد کو انصاف نہیں ملتا جبکہ دولت مند اور طاقتور افراد کو ہر چیز میسر ہے ۔اُن کا کہنا تھا کہ اُنہیں اس بات کی پروا نہیں کہ اُنہیں انصاف ملتا ہے یا نہیں، وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بیٹے کی قربانی معاشرے کی اصلاح کاباعث بن جائے ۔ اُنھوںنے انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی ، وکلا ، لکھاریوں اور شاعروں پر اپنے اعتماد کا اظہار کیاکہ وہ اس مسئلے کو اجاگر کرنے اور معاشرے میں آگاہی پھیلانے میںاپنا کردار ادا کریں گے ۔
اقبال شاعر کو اس بات کی تکلیف تھی کہ نہ صرف اُن کے بیٹے کو بہیمانہ طریقے سے ہلا ک کیا گیا بلکہ اُس پر توہین کا الزام بھی لگایا گیا ۔ وہ حیران تھے کہ اُن سے بڑھ کر اُن کے بیٹے کو کون جانتا ہوگا۔ اُنھوںنے کہا کہ اﷲ اور تمام گرد ونواح کے لوگ جانتے ہیں کہ اُنھوں نے مشال سمیت اپنے دیگر بچوں کی اپنی نظروں کے سامنے پرورش کی ہے اور اُنہیں اچھے انسانی رویے سکھائے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے بچوں کو انسانی دوستی اور ادب دوستی کی تعلیم دی ہے ۔ اُنھوںنے دعویٰ کیا کہ اگر اُن کے بچوں نے کبھی اسلام کے خلاف کوئی بات کی تووہ خو دکو احتساب کے لئے پیش کرتے ہیں۔ اُنھوںنے کہا کہ مشال اور اُس کی بہن نے اسلامیات کے پرچے میں سے پچاس میں سے اڑتالیس نمبر حاصل کیے تھے ۔ اُنھوں نے کہا ۔۔۔’’ میں مہینے میں دو مرتبہ قرآن ِ پاک ختم کرلیتا تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ میں کسی سے کم مسلمان ہوں۔‘‘
غمزدہ والد نے اپنے بیٹے مشال کی رسول ِ پاک ﷺ سے محبت کو بھی اجاگر کیا۔ اقبال شاعر کا کہنا تھا کہ جرنلزم کا طالب علم ہونے کے ناتے مشال اکثر معاشی نظام اور حکومت کی غریب مخالف پالیسیوں کا ناقد تھا ، اور وہ عدل اور سماجی اور معاشی انصاف کے لئے خلیفہ دوم ، حضرت عمر ؓ کے زریں عہد کی مثال دیا کرتا تھا۔اقبال شاعر کا کہنا تھا کہ اُن کا نقصان بہت بڑا اور ناقابل ِ برداشت ہے ۔ اُنہیں امید تھی کہ وہ اس سانحے کے باوجود امید اور محبت کا پیغام عام کرتے رہیں گے ۔ اس کے بعد اُنھوں نے پشتو کے کچھ اشعار پڑھے جن کا مطلب تھا کہ سورج کی کرنوں کو پابند سلاسل نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ اُس بوڑھے اور غمزدہ والد کے بہت دلیرانہ الفاظ تھے جنہوں نے اپنے جواں سال بیٹے کو کھو دیا تھا۔ اُنھوںنے یہ بھی بتایا کہ مشال کی والدہ نے اُسے فون کیا تھا کہ وہ اس ویک اینڈ پر گھر آئے کیونکہ وہ کچھ عرصے سےہوسٹل سے گھر نہیں آیا تھا۔ تاہم بیٹے کی منتظروالد ہ کی قسمت میں اُس کی تشدد زدہ لاش کو دیکھنا لکھا تھا۔
.