• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشمیروںکی جدوجہد آزادی حال ہی میں مزاحمت کے ایک انوکھے طریق کار سے روشناس ہوئی ہے۔ کم عمر بچیاں ہاتھوںمیں کنکر لئے اچانک برآمد ہوتی ہیں اور قابض سپاہ پر ان کی بارش کر دیتی ہیں اور بھارتی سور مائوں کا یہ عالم ہےکہ معصوم بچیوں کی یورش کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی نہیںکر پا رہی۔ 9؍اپریل کو اسی قسم کے ایک ’’حملہ‘‘سے بچنے کے لئے انہوں نے ایک نادر ترکیب ایجاد کی۔ ایک کشمیری نوجوان فاروق ڈار کو ہیومن شیلڈ کے طورپر جیپ کے بونٹ سے باندھ کر شرپسندوں‘‘ کے علاقے سے گزرنے میں عافیت جانی۔ جس کا عالمی میڈیا نے بھرپور نوٹس لیا اور اس قسم کی غیرانسانی حرکت پر بھارت سرکار کی مذمت کی۔
وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی گرفت ریاستی معاملات پر روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ سری نگر کی ایک نشست پر حالیہ ضمنی انتخابات نےان کی راتوں کی نیند اڑا دی ہے۔ تمام تر حکومتی جبر کے باوجود صرف سات فیصد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ جسے بھارتی اپوزیشن پارٹیوں اور بعض صحافتی حلقوں نے بائیکاٹ کے مترادف قرار دیا ہے۔ محبوبہ مفتی نے دہلی جا کر مودی سرکار کو جائزہ رپورٹ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ یہ سفارش بھی کی کہ کشمیریوں کو ٹھنڈا کرنے اور قرینے میں لانے کے لئے مذاکرات کا ڈول ڈالا جائے۔ مگر جواباً وزیرا عظم مودی اور وزیر داخلہ راجناتھ نے ان کو خبر دار کیا کہ باغیوں اور علیحدگی پسندوں سے گفت و شنید نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لئے انہیں ’’تشدد اور مجرمانہ‘‘ سرگرمیوں کو خیر باد کہنا ہو گا۔ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ نے بھی محبوبہ مفتی کی حمایت کرتے ہوئے دہلی سرکار کو خبر دار کیا ہے کہ کشمیر بتدریج ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے۔ تشدد مسئلے کا حل نہیں اور اس سے انڈیا کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ مسئلے کا آبرومندانہ اور منصفانہ حل محض یہ ہے کہ بھارت سرکار کشمیر کے جملہ اسٹیک ہولڈرز بشمول پاکستان، حریت پسندوں، سیاسی جماعتوں اور کشمیری ہندوئوں سے مذاکرات کا آغاز کرے۔ موصوف نے مرکزی حکومت کو کشمیر کے حوالے سے حکمت عملی میں میجر شفٹ کا مشورہ بھی دیا، کہ وقت آچکا ہے کہ دہلی سرکار مسئلہ کے فوجی حل کی بجائے سیاسی حل پر توجہ دے۔
اس قسم کی عاقلانہ آوازیں سول سوسائٹی ، میڈیا، حتی کہ عساکر ہند کی جانب سے بھی آنا شروع ہو گئی ہیں۔ معروف بھارتی صحافی، اینکر پرسن اور مصنف شیکھر گپتا نے پچھلے ہفتے اپنے کالم میں لکھا کہ 5/6لاکھ فوج کے سہارے کشمیر کی جغرافیائی حدود کو تو محفوظ بنایا جاسکتا ہے، مگر جذباتی اور نفسیاتی طور پر ہم یہ جنگ تیزی سے ہار رہے ہیں۔ سری نگر کے ایک حلقے کے حالیہ ضمنی انتخابات میں محض سات فیصد ٹرن آئوٹ ظاہر کرتا ہے کہ زمین تو قابو میں ہے ، مگر ہم زمین کے باسیوں کو بتدریج کھوتے جا رہے ہیں۔ کچھ اسی قسم کی سوچ عسکری حلقوںمیں بھی پروان چڑ ھ رہی ہے۔ گو آرمی چیف جنرل ربین راوت کی فروری والی بڑھک ریکارڈ پر ہے۔ جس میں موصوف نے حریت پرستوں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے دن گنے جا چکے اور فوجی آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک انہیں صفحہ ہستی سے مٹا نہیں دیا جاتا مگر زمینی حقائق سے جڑے فارمیشن آفیسر زدن بدن خراب ہوتی ہوئی صورت حال سے پریشان ہیں۔ ایک ایسے ہی سینئر کمانڈر نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی کشمیری نسل تیزی کے ساتھ بھارت سے دلبرداشتہ ہورہی ہے اور سرکار مخالف مظاہروں اور کارروائیوں میں پیش پیش ہے۔ وادی ایسے نوجوانوں سے بھری ہوئی ہے۔ ساٹھ فیصد سے زائد آبادی تیس برس سے کم لوگوں کی ہے۔ جن کے پاس احتجاج کے سوا کرنے کو کچھ نہیں کیونکہ وہ ناراض بھی ہیں اور کنفیوژ بھی۔ کچھ عرصہ پہلے کشمیر یاترا کے دوران وزیر اعظم مودی کے اس بیان کہ ’’کشمیری ٹیررازم اور ٹورازم‘‘ میں ایک کا انتخاب کر لیں سےبھی وہ خاصے برہم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی تو خود بھارت سرکار کر رہی ہے اور اسی نے سیاحت کو برباد کر کے ہمارے منہ کا نوالہ چھین رکھا ہے۔
پچھلے برس موسم گرما مقبوضہ کشمیر پر قیامت بن کر گزرا تھا۔ جولائی میں قابض سپاہ نے نوجوان کشمیری حریت پسند برہان مظفر وانی کو قتل کیا تھا۔ پھر مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا۔ جن سے نمٹنے کے لئے چھروں والی بندوق کا استعمال اس وحشیانہ طریقے سے کیا گیا کہ سینکڑوں کی تعداد میں شہادتیں ہوئیں۔ زخمی ہونے والے بھی ہزاروں میں تھے۔ جن میں سے بے شمار زندگی بھر کے لئے بینائی سے محروم ہو گئے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ وادی پر یہ گرمیاں بھی بھاری رہیں گی۔ آغاز ہی بدترین مظالم سے ہوا، بیتے برسوں میں بھارت جن کی اطلاع تک باہر نہیں نکلنے دیتا تھا مگر جدید سماجی روابط کے اس دور میں انہیں چھپانا ممکن نہیں رہا اور بھارت نے اوچھا وار کرتے ہوئے سوشل میڈیا کو بھی پابند سلاسل کر دیا مگر تمام تر حفاظتی تدابیر رائیگاں ہیں۔ بی بی سی اور سی این این کے علاوہ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ جیسے موقر اخبارات بھی بھارتی مظالم کی دہائی دے رہے ہیں۔
اپنے حالیہ دورہ بھارت کے دوران ترکی کے صدر طیب اردوان نے بھی ایک انٹرویو میں مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کی:’’پاکستان اور بھارت کو روابط بڑھانا ہونگے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر مذاکرات کی جانب جانا ہوگا… کشمیر کا آبرومندانہ حل نہ صرف پاکستان اور بھارت کے مفاد میں ہے، اس سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے حوالے سے بھی خوشگوار تبدیلی آئے گی۔سات دہائیوں سے حل طلب مسئلے کو مزید لٹکانا آنے والی نسل کےساتھ زیادتی ہوگی۔ پھر نہ جانے انہیں اس کی کیا قیمت چکانا پڑے۔پاکستان اور بھارت خطے کے ہم ملک ہیں اور دونوں ہی ہمارے دوست ہیں… وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ میں نے اس موضوع پر کئی بار بات کی ہے ان کے ارادے نیک ہیں اور وہ مسئلے کا پر امن اور پائیدار چل چاہتےہیں‘‘۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کےساتھ دو طرفہ مذاکرات کے دوران بھی صدر اردوان نے کشمیر کے حوالےسے اپنے موقف کو دہرایا۔ بھارتی میڈیا نے مہمان صدر کے ساتھ گفتگو میں مقبوضہ کشمیر اور کردباغیوں کے معاملے کو مکس اپ کرنے کی کوشش کی تو ترک صدر کا جواب تھا کہ آپ سیبوں کا مقابلہ مالٹوں سے کر رہے ہیں۔ کشمیر علاقائی تنازع ہے جب کہ ہمارا معاملہ ایک دہشت گرد تنظیم کے ساتھ ہے۔



.
تازہ ترین