چمن‘کوئٹہ ( نمائندہ جنگ‘ایجنسیاں ) پاک افغان سرحدی شہر چمن میں صورتحال دوسرے دن بھی کشیدہ رہی‘ بارڈر بند اور سرحدی دیہاتوں کو خالی کروالیا گیا‘ پاک افغان سرحدی حکام کے درمیان فلیگ میٹنگ کا دوسراراوٴنڈبھی کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گیا‘ افغانستان کے پاکستان پر جوابی الزامات ‘متاثرہ افراد کے لیے سرحد سے پانچ سے چھ کلومیٹر دوررہائش کیلئے عارضی کیمپ قائم‘2ہزارخاندانوں میں امدادی سامان تقسیم‘ تازہ دم دستے چمن پہنچ گئے ‘پاک فوج کابھاری توپ خانہ اگلے مورچوں پرپہنچادیاگیا‘علاقے کی فضائی نگرانی جاری‘گن شپ ہیلی کاپٹرزوقفے وقفے سے سرحدوں کی نگرانی کرتے رہے‘سرحد کے دونوں جانب فورسزمورچہ بند‘ بارڈر سے ملحقہ 4کلومیٹر کے علاقے کو ’’نومینز لینڈ‘‘ قرار دیدیا گیا‘شہر کے تعلیمی ادارے‘ بازار اور دفاتر بند رہے‘تعلیمی اورتجارتی سرگرمیاں معطل‘ سرحدی گیٹ باب دوستی بھی بند رہا جس کی وجہ سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور نیٹو سپلائی بھی معطل رہی اورسرحد پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں‘ نیٹو سپلائی افغان ٹرانزٹ ٹریڈاوردیگرتجارتی سامان سے لدے ٹرکوں کوباب دوستی سے واپس چمن بھجوا دیا گیا ‘ ایف آئی اے کاویزہ سیکشن بھی بندرہا‘ویزہ اور پاسپورٹ پربھی پاکستان اورافغانستان کے درمیان آمدورفت معطل رہی ‘بارڈر پر ایف سی کے ساتھ پاک فوج کے جوان بھی تعینات کردیئے گئے جبکہ چمن کے سرحدی دیہات گلدار باغیچہ، کلی لقمان ، کلی جہانگیر ، رحمان کہول کے علاقوںمیں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اعلانات کرکے علاقوں کو خالی کرو الیا گیا‘ افغان گولہ باری اور فائرنگ سے شہید ہونے والے افراد میں سے بیشتر کی نماز جنازہ اور تدفین کردی گئی‘ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری نے واقعہ میں شہید افراد کے لواحقین اور زخمیوں کے لیے معاوضوں کی ادائیگی کا اعلان کیا ہے‘ پی ڈی ایم اے بلوچستان نے چمن میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی سیل قائم کردیا ہے جہاں پانچ ایمبولینس ، طبی عملہ اور دوائیں موجود ہیںجبکہ امدادی سامان کے 19 ٹرک بھی چمن پہنچ گئے ہیں‘ضلعی انتظامیہ کے مطابق امدادی سامان میں خیمے،ادویات اور کھانے پینے کا سامان شامل ہے ۔مزیدبرآںبلوچستان متحدہ محاذکے زیر اہتمام وائس چیئرمین شمس مینگل کی قیادت میں چمن میں افغان فورسز کی جارحیت کے خلاف کوئٹہ میں افغان قونصلیٹ کے سامنے ہفتہ کو احتجاجی مظاہرہ کیا گیا‘ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھارکھے تھے جن پر افغان فورسز جارحیت کے خلاف نعرے درج تھے‘ادھر نیول چیف ایڈمرل ذکاء اللہ نے کوئٹہ سی ایم ایچ کا دورہ کیا ہے جہاں انہوں نے چمن واقعے کے زخمیوں کی عیادت کی ہے۔ دریں اثناءڈائریکٹر جنرل پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بلوچستان محمد طارق نے کہا ہے کہ افغان فورسز کی گولہ باری سے متاثر ہونے والے چمن کے رہائشیوں کے لئے امدادی سامان پہنچادیا گیا ہے‘2ہزارخاندانوں میں امدادی سامان کی تقسیم کا عمل مکمل ہوگیا ہے ‘پی ڈی ایم اے کے پاس ریلیف کا مزید سامان موجود نہیں اس لئے حکومت سے اس سلسلے میں60کروڑروپے مانگے گئے ہیں۔ادھر کشیدگی کے خاتمے کیلئے پاک افغان سرحدی حکام کے درمیان فلیگ میٹنگ کادوسراراوٴنڈبھی کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گیا۔سیکورٹی حکام کے مطابق پاک افغان بارڈرباب دوستی پرپاکستان اورافغانستان کے اعلیٰ فوجی حکام کے درمیان ایک اورفلیگ میٹنگ منعقدہوئی‘ اس میٹنگ میں پاکستان کی جانب سے کمانڈرایف سی نارتھ سیکٹربریگیڈیئرندیم سہیل کمانڈنٹ چمن اسکاوٴٹس کرنل محمدعثمان جبکہ افغانستان کی جانب سے وفدکی قیادت افغان نیشنل آرمی کے میجرجنرل احمدین اوردیگرنے کی‘ یہ فلیگ میٹنگ کئی گھنٹے جاری رہی جس میں دونوں ممالک کے وفوداپنے اپنے موقف پرقائم رہے ‘فلیگ میٹنگ میں پاکستانی وفدنے دوٹوک اورواضح موقف اختیارکرتے ہوئے افغان وفدکوتجویزد ی کہ اس مسئلے کاآسان حل یہ ہے کہ کلی لقمان اورکلی جہانگیرکانقشہ گوگل پرسرچ کرتے ہیں‘ اس نقشے میں یہ علاقہ جس ملک کاحصہ ظاہرہواسی ملک کی ملکیت تصور کیا جائیگا ‘ تاریخی لحاظ سے یہ علاقہ پاکستان کاحصہ ہے جس کا واضح ثبوت مذکورہ دونوں گاؤں میں پاکستان کی جانب سے بجلی کی فراہمی ہے‘وہاںپرپاکستانی اسکولزاوراسپتال ہیںاورپاکستان کی جانب سے سڑکیں تعمیرکی جاچکی ہیں‘ مذکورہ دیہات کے مکینوں کی دستاویزات چیک کی جائیں توواضح طورپرمعلوم ہوگاکہ ان کے پاس 1974کے پاکستانی شناختی کارڈموجودہیں ۔