پیر کے روز پیر ودھائی موڑ پر ایک خودکش حملہ آور نے جو موٹر سائیکل پر سوار تھا اچانک ہجوم کے اندر داخل ہو کر اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا جس سے 13 افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہو گئے جبکہ 10 سے زائد گاڑیاں بھی تباہ ہو گئیں۔ وفاقی ارباب اختیار کی طرف سے گزشتہ کئی روزسے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ پنجاب کے بڑے شہروں میں بالخصوص اور دیگر مقامات پر بالعموم خودکش حملوں کا خطرہ موجود ہے اور اس بارے میں انٹیلی جنس اداروں نے پوری طرح محتاط رہنے کے اشارے بھی دیئے لیکن چونکہ اس وقت پورے ملک میں سیاسی محاذ آرائی کی کیفیت موجود تھی اس لئے اس طرف خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی اور یہ گمان کیا گیا کہ ایسے حملوں کے بارے میں افواہیں محض لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے لئے اڑائی جا رہی ہیں ۔اب راولپنڈی میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے دہشت گردی میں آنے والی جس شدت کی بات کی جارہی تھی وہ یکسر بے بنیاد نہیں تھی اور اب دہشت گرد باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت قبائلی علاقوں سے نکل کر ریاستی عملداری میں آنیوالے شہروں اور قصبات میں کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اہل سیاست سب مل کر اس خطرے کی سنگینی کا احساس کریں اور دہشت گرد خواہ مقامی ہوں یا غیرملکی، انکا قلع قمع کرنے کیلئے اپنی قوت کو مجتمع کریں اور انہیں کسی طرح اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہونے دیں۔