آج شہید ذوالفقار علی بھٹو کو زندہ جاوید ہوئے 30 سال گزر گئے ہیں۔ تین دہائیاں چوتھائی صدی سے زیادہ لیکن آج بھی پاکستان میں سیاست کا حوالہ وہی ہیں، آج بھی سیاسی وفاداریاں بھٹو شہید کے رشتے سے ہی منسلک ہیں بلکہ آج ان کے افکار کی اہمیت اور افادیت ماننے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ان کے مخالفین کی آنکھوں پر آمریت، رجعت پرستی، انتہا پسندی اور استعمار کے یرغمالیوں نے جو مصلحت کے پردے ڈال رکھے تھے وہ اٹھ رہے ہیں۔ کم علمی کے اندھیرے چھٹ رہے ہیں۔ ان کی عزیز ترین عظیم دختر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اپنے بے مثال والد کی روشن کی ہوئی شمع کو جس عقیدت اور ذمہ داری سے آگے لے کر بڑھیں اس سے بھٹو شہید کی معروضی سیاسی سوچ کی روشنی اور زیادہ ذہنوں اوردلوں تک پہنچی۔ اب یہ مشعل پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی بیداری اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے نظریہ کو عملی طور پر پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا اور عالمی سطح پر اجاگر کر رہے ہیں۔ یہ ایک عظیم سیاسی فکر کا تسلسل ہے۔ ایک دریا کی روانی ہے جس میں موجیں آ رہی ہیں، شامل ہو رہی ہیں اور عقیدتوں، محبتوں، بیداریوں، وفاداریوں کا یہ دھارا اور زیادہ وسیع اور تیز ہو کر بہہ رہا ہے۔
مجھے ذاتی طور پر یہ فخر ہے کہ میں اس مسند پر فائز ہونے کا شرف حاصل کر رہا ہوں جہاں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے رونق افروز ہو کر انتہائی تاریخی اقدامات کئے۔ جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بیٹھ کر ملک اورقوم کی خدمات انجام دیں۔ میں تو ہر لمحہ یہ سوچتا ہوں کہ یہ امانت ہے جو مجھے اللہ تعالیٰ نے سونپی ہے جو مجھے میری پارٹی نے عنایت کی ہے۔ میں اپنی پوری صلاحیتوں اور توانائی سے اس ذمہ داری کو انجام دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ انتہائی مشکل اور کٹھن منصب ہے لیکن مجھے پارٹی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
میرے سامنے پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو کا ایک ایک لمحہ ہے۔ اپنی شہید قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کا ایک ایک اقدام ہے۔ اس لئے ایک اجالا مجھے ہر موڑ پر ملتا ہے اور میں ان کی مفاہمت کی پالیسی کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی خوشی ہوتی ہے کہ گزشتہ 30 برس میں ہر بدلتے لمحے کے ساتھ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی افکار، قائدانہ کردار اور انتظامی اقدامات کی اہمیت کو تسلیم کیا جارہا ہے۔
مورخین، مبصرین اور تجزیہ کار تاریخ پاکستان میں ہماری پارٹی کے بانی کے دور حکومت کو سب سے زیادہ نتیجہ خیز اور اہم قرار دے رہے ہیں۔ ان کی بصیرت، پیش بینی اور معاملہ فہمی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ملکی امور اور بین الاقوامی تعلقات پر ان کے نقطہٴ نظر کی ہمہ گیری کو قابل قدر جانتے ہیں۔ صرف ہمارے ہی نہیں دنیا بھر کے اہل نظر 1973ء کے آئین کی متفقہ منظوری کو ایک ایسا عظیم سیاسی کارنامہ مانتے ہیں، جب ایک ناممکن کو ممکن کردکھایا گیا۔ اس سے پہلے بھی 1956ء اور 1962ء میں دو آئین ملک میں نافذ کئے گئے لیکن چونکہ انہیں عوامی حمایت حاصل نہیں تھی پارلیمنٹ میں قواعد و ضوابط کے مطابق ان پر بحث نہیں ہوئی تھی، تمام صوبوں کے منتخب قائدین کی مرضی ان میں شامل نہیں تھی، اس لئے یہ دونوں آئین جلد ہی دم توڑ گئے۔
1973ء کے آئین کی تشکیل، تدوین اور منظوری میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی لگن، حب وطن، روشن خیالی اور خلوص فکر شامل تھا۔ انہوں نے تمام سیاسی قائدین سے مذاکرات کئے۔ تمام صوبائی قیادتوں سے خود مکالمہ کیا۔ ایک سرزمین بے آئین کے لئے دستور کی اہمیت کا احساس دلایا۔ ان کی اور ان کے قریبی ساتھیوں کی سیاسی پیش بینی اور ملکی مفاد سے وابستگی نے ہی ملک کو ایسا متفقہ آئین دیا جو آمرانہ حکومتوں کی ناانصافیوں، حکمرانوں کی مصلحتوں اور میڈیا کی خاموشیوں کے باوجود ملک کا آئین ہے اور 36 سال سے اس مملکت کا رائج الوقت قانون ہے۔ اس میں بے شمار ترامیم کی گئیں، کبھی سرد خانے میں رکھا گیا، کبھی بالائے طاق، لیکن اس کی توانائی اسی طرح ہے۔ اس کی قوت اسی انداز کی ہے۔ پاکستانیوں کی اِس آئین سے عقیدت اور محبت اب تک قائم ہے۔ شہید بھٹو نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو بہرصورت برقرار رکھا۔
انہوں نے ہمیشہ پارلیمنٹ سے رہنمائی حاصل کی۔ یہ جناب شہید بھٹو کے تدبر اور بین الاقوامی امور پر گرفت کا نتیجہ تھا کہ وہ بھارت کی قید سے ایک لاکھ سے زیادہ جنگی قیدیوں کو وطن واپس لائے ۔ وہ پاکستانی فوج کو دنیا کی بہترین پیشہ ورانہ فوج بنانا چاہتے تھے اور انہیں عالم اسلام کے محافظ سپاہی کہتے تھے۔ ان کے دور میں ہی پاکستانی بری فوج، فضائیہ و بحریہ کے دستے دوست عرب ممالک میں گئے اور ان کی فوجوں کو تربیت اور تنظیم میں مدد کرتے رہے۔
تاریخِ پاکستان کے ہر ورق پر اور اس سرزمین کے ہر انچ پر جناب ذوالفقار علی بھٹو کے نقوش روشن ہیں۔ ہر پاکستانی کے دل میں انہوں نے اپنی دھرتی سے محبت، اپنے حقوق کا شعور اور ہر شہری کے ذہن میں عزت نفس پیدا کی۔ وہ ایسے ایسے علاقوں میں گئے جہاں ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کوئی ملکی یا پارٹی سربراہ گیا۔ انہوں نے اپنی جماعت ایسے حالات میں منظم کی جب ٹی وی چینل تو تھے ہی نہیں پاکستان ٹی وی ان کی کوئی خبر نہیں دیتا تھا۔ جب اخبارات ان کے بڑے بڑے جلسوں کی سنگل کالم خبر بھی نہیں شائع کرتے تھے۔
انہوں نے اپنے عوامی رابطے کو اتنا فعال بنایا اور اتنی مضبوط بنیادوں پر استوار کیا کہ ان کی سیاسی جدوجہد کی سینہ بہ سینہ چلنے والی اطلاعات اخبارات سے زیادہ موثر وسیلہ ابلاغ بن گئیں۔ وہ ملک کو آگے لے جانے کا ایک واضح تصور رکھتے تھے۔ ان کے اور عام پاکستانیوں کے دل کی دھڑکن ایک جیسی تھی ۔ اس لیے میڈیا کی کسی مدد کے بغیر بلکہ شدید مخالفت کے باوجود صرف تین سال کے اندر ان کی پارٹی موجودہ پاکستان کی اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئی اور صرف ساڑھے پانچ سال کے عرصے میں جناب بھٹو نے اپنے اور عوام کے بہت سے خوابوں کو حقیقت میں بدل ڈالا۔ ملک میں مستحکم جمہوری اداروں کی بنیاد رکھی۔ جنوبی ایشیا میں آنے والے خطرات کا احساس کرتے ہوئے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے پروگرام کا آغاز کیا۔ ہر صوبے میں مضبوط انفرااسٹرکچر کے لیے شاہراہوں، پلوں، سرکاری عمارات کی تعمیر شروع کرائی۔
شعبہ تعلیم میں ان کی جاری کردہ اصلاحات کے سبب ہی آج اساتذہ اعلیٰ سرکاری گریڈ تک پہنچ پاتے ہیں۔ انہوں نے تدریس کے شعبے کو باوقار بنایا۔ خلیجی ریاستوں سمیت مسلم ممالک میں تعمیروترقی کیلئے پاکستانی ہنرمندوں اور غیرہنرمند محنت کشوں کوبڑی تعداد میں بھجوایا۔ اس دور سے پہلے پاسپورٹ بہت ہی کم شہریوں کو نصیب ہوتا تھا۔ اس کے عام اجراء کا آغاز ہوا، کون بھول سکتا ہے کہ یہ شہید ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جن کے دور میں ہمارے ثقافتی مرکز لاہور کو مسلم سربراہوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ ایسی نمائندہ اسلامی سربراہ کانفرنس پھر دنیا میں کبھی منعقد نہیں ہوسکی اور نہ ایسے اہم بین الاقوامی فیصلے کبھی مسلم سربراہ کرسکے۔
یہ حقیقت تاریخ کے دھندلکوں میں چھپ کر رہ گئی ہے کہ شہید بھٹو ہی وہ پہلے سربراہ تھے جنہوں نے قبائلی علاقوں (فاٹا) کو صنعت، زراعت تعلیم کے شعبوں میں ملک کے دوسرے علاقوں کے برابر لانے کے لئے ایک انتہائی وسیع اور بھرپور منصوبے کا آغاز کیا تھا جسے اقوام متحدہ کے امدادی ترقیاتی اداروں اور دوسرے ممالک کے ایسے ہی شعبوں کی شراکت میسر تھی۔ انہوں نے ان حسین وادیوں میں ترقی اور یہاں کے غیور باشندوں کی خدمت کا خواب اس وقت دیکھا تھا۔ ہم نے ان علاقوں میں امن و امان قائم کرکے شہید بھٹو کے ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ترقیاتی کاموں کا آغاز کردیا ہے۔ آج ان کے یومِ شہادت پر ان کو سب سے بہتر خراجِ عقیدت یہی ہوسکتا ہے کہ ہم پھر وہی اعتدال پسند اور ترقی پسند معاشرہ قائم کرنے کی عملی کوشش کریں جو جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تھا اور جب پاکستان ایک طرف تیسری دنیا کی امنگوں کا مرکز تھا اور دوسری طرف عالم اسلام کی آرزوؤں کا محور تھا جسے بعد میں آنے والی سفاک آمریت نے شدت پسندی اور انتہاپرستی کی طرف دھکیل دیا۔
ہم آج اپنی پارٹی کے بانی سے عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنی حکومت اپنی جماعت اوراپنی ذاتی حیثیت میں جناب بھٹو کے سیاسی افکار اور معاشرتی اقدار کو رہنما خطوط قرار دے کر انتہاپسندی، رجعت پرستی، فرقہ واریت کے خلاف عملی جدوجہد کریں گے اور پاکستانی معاشرے کو وہی ماحول اور وہی فضا فراہم کریں گے جو قائداعظم کی تعلیمات اور قائد عوام کی تقاریر میں سانس لیتی ہے۔