• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ کچھ دہائیوں سے ہم اس بات پر بہت خوش ہیں کہ کمپیوٹر اور نیٹ کے ذریعے دنیا میں انقلاب بپا ہوگیا ہے لوگوں نے روایتی ٹائپ رائٹرز یا تو کباڑیوں کو بیچ دیئے یا ان پر پرانے اخبارات کے غلاف چڑھا کر انہیں اسٹورز میں پھینک دیا اور بڑے بڑے اداروں، کمپنیوں اور دفاتر نے بڑے فخر سے یہ پوسٹرز آویزاں کرنا شروع کردیئے کہ ’’پیپر فری آفس‘‘ یعنی سارا کام کمپیوٹر پر ہوتا ہے اور اس کی ترسیل انٹر نیٹ کے ذریعے ہوتی ہے ، ایک ہی عمارت یا ایک ہی کمرے یا پھر ایک ہی ٹیبل پر بیٹھ کر آپ ای میل کے ذریعے سرکاری یاغیر سرکاری خطوط یا دیگر احکامات جاری کرنے لگے لیکن اگر ہم گزشتہ چند ماہ پر نظر دوڑائیں تو دنیا میں میڈیا کی جو سب سے بڑی ہیڈ لائنز بنیں وہ اسی ’’ انقلاب‘‘ کے حوالے سے تھیں کہ دنیائے جمہوریت کے بڑے امریکن الیکشن کو روس نے ہیک کرکے مرضی کے نتائج بناڈالے ہیں اور ٹرمپ کو جتوادیا ہے ، دوسری بڑی خبر یہ تھی کہ فرانس میں صدارتی الیکشن کے ایک امیدوار ایمانوئیل میک غوں جواب فرانس کے صدر ہیں کی انتخابی مہم کے حوالے سے ای میلز یا ترتیب دیا جانے والا پروگرام ہیک یا چوری کرلیا گیا ہے اور تیسری بڑی ہیڈ لائن بلکہ پوری دنیا میں تہلکہ مچا دینے والی یہ تھی کہ NEW WANNACRY RANSOMWAREنے دنیا بھر کے اداروں یا کمپنیوں کے ڈیٹا کو ’’یرغمال‘‘ بنا کر انہیں بے بس کردیا ہے ، آج جب ہم کمپیوٹر کو ، چاہے وہ ہمارے ہاتھوں میں موبائل فون کی شکل میں کیوں نہ ہو سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں اور اس میں اپنے حوالے سے تمام معلومات، تمام پیغامات، تصاویر یا ویڈیوز کو بند کرکے محفوظ سمجھتے ہیں اور یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہم نے اپنے حوالے سے تمام معلومات، اپنے اے ٹی ایم کارڈز ، اپنے بینک میں رکھے جانے والے اکاؤنٹس، اپنی محبت یا دوستی کے تمام پیغامات، تصاویر اور پرائیویٹ ویڈیو زکو کوئی دوسرا نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ چراسکتا ہے لیکن دنیا کے شاطر ہیکرز نے اس محفوظ خزانے کو غیر محفوظ کردیا ہے ، اس لئے چند روز قبل جب دفاتر میں، اداروں میں، کمپنیوں میں یا گھروں میں رکھے ہوئے پرسنل کمپیوٹرز کو کھول کر اپنے ہی ڈیٹا تک رسائی کی کوشش کی گئی تو ڈیٹا کی جگہ عجیب و غریب سے ہندسے دائیں بائیں یا اوپر نیچے حرکت کرتے نظر آئے، اپنی ہی ای میلز ، پیغامات یا تصاویر تک رسائی ناممکن ہورہی تھی ، کوئی انٹرنیٹ کمپنی کو کوس رہا تھا تو کوئی کمپیوٹر کے برانڈ کو برا بھلا کہہ کر اپنا غصہ نکال رہا تھا کوئی کی بورڈ کو الٹ پلٹ رہا تھا تو کوئی اینٹی وائرس کے ذریعے اپنا ڈیٹا واپس لانے کی کوشش کررہا تھا لیکن علم اور جان کاری رکھنے والے سمجھ چکے تھے کہ ان کے ڈیٹا کو ہیکرز نے نہ جانے کہاں بیٹھ کر یرغمال بنالیا ہے اور پھر کچھ دیر بعد ان پر یہ عقدہ کھلا کہ وہ اپنے یرغمال ڈیٹا کو تاوان دے کر واپس حاصل کرسکتے ہیں کہ ڈیٹا چوروں نے ان کی قیمتی اور پرائیویٹ معلومات کو، بزنس انفارمیشن کو ہیک کرلیا تھا اور ایک مخصوص تاوان کے ذریعے ہی وہ واپس حاصل کیا جاسکتا تھا ، ہم پاکستانی یعنی عام لوگوں سے لے کر بڑے اداروں کے لوگ اس حوالے سے ’’معصومیت‘‘ اور لاعلمی کا شکار ہیں۔ ہم اپنی ای میلز اور اپنے ہاتھ میں موبائل فون کی شکل میں اٹھائی ہوئی ڈیوائس کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور چاہے ہماری ذاتی معلومات ہوں یا ملک کے سرکاری اداروں کا انتہائی اہم ڈیٹا وہ اسے نہ صرف اپنے کمپیوٹرز میں رکھتے ہیں بلکہ اسے محفوظ بھی سمجھتے ہیں، لیکن یہ اب دشمن یا ہیکرز کی رسائی سے باہر نہیں جب تک کہ آپ اس کو محفوظ بنانے کیلئے کچھ اقدامات نہیں کرتے اور الرٹ نہیں رہتے لیکن پھر بھی اس کو سو فیصد محفوظ نہیں سمجھا جاسکتاہے کیونکہ آپ جو پیغام رسانی کیلئے ای میلز یا وٹس ایپ یا دیگر ایپس کو استعمال کرتے ہیں وہ کسی اور کے ہاتھ میں ہیں ۔ہمیں سائبر سکیورٹی کے ذریعے کو اپنا ہوگا اور اس کو سمجھنا بھی ہوگا ورنہ خفیہ کوڈ ہوں یا اہم اداروں کا ڈیٹا، ذاتی معلومات ہوں یا ہمارے اداروں کی خفیہ منصوبہ بندی، ٹیکس کے اداروںکی تفصیلات ہوں یا بینکوں کے کھاتے، زمینوں کی ملکیت ہو یا ایگزٹ کنٹرول لسٹ شاطر چور ان تک رسائی حاصل کرکے نہ صرف آپ سے دور لے جاسکتے ہیں بلکہ ان میں مرضی کی ترامیم بھی کرسکتے ہیں اس لئے اسے محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کا ادراک بھی کرنا ہوگا کہ اسے چرایاجاسکتا ہے ، اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اس کی جان کاری حاصل کرکے اس کے خلاف منصوبہ بندی بھی کی جاسکتی ہے ، سرکاری اداروں کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ وہ کون کون سی معلومات ای میلز کے ذریعے ٹرانسفر کرنے سے گریز کریں۔ بس سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے ۔

.
تازہ ترین