پیپلزپارٹی کو اپنی تاریخ میں جتنا نقصان پینتیس دن کے پنجاب میں گورنر راج کے دوران ہواکبھی نہیں ہوا۔ اس ناقابل تلافی نقصان کا ذمہ دار کون ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ پی پی پی کے بہت سے اپنے باخبر لیڈر جانتے ہیں کہ مشیر داخلہ رحمن ملک اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے صدر آصف علی زرداری کو پنجاب میں مہم جوئی پر قائل کیا اور یقین دہانی کرائی کہ وہ ریاستی طاقت کے بل بوتے پر تین دن میں پی پی پی کی حکومت بنا لیں گے اور پی ایم ایل این میں واضح دراڑیں ڈالنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔اس خام خیالی کا کیا انجام ہوا سب کے سامنے ہے۔ اس بڑی ناکامی کے بعد اگر صدر اپنے ان مشیروں کو چلتا کرتے تو نہ صرف ان کی کافی حد تک اپنی ساکھ بحال ہوتی بلکہ پی پی پی کے بہت سے لیڈر اور کارکن بھی خوش ہوتے کہ پارٹی کو مزید تباہی سے بچا لیا گیا ہے۔ تاہم اب بھی وقت ہے کہ صدر زرداری ان مشیروں سے جان چھڑا لیں اس میں ان کا اپنا ہی بھلا ہے ورنہ مزید نقصان ہونے کا احتمال ہے۔
انسان کی عظمت اس میں ہے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرے اور ساتھ ساتھ پرانی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کرے ۔ صدر زرداری نے شریف برادران کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کو ایک سنہری موقع سمجھا اور پنجاب پر قبضہ کرنے کے اپنے پرانے خواب کی تکمیل کے لئے گورنر راج نافذ کر دیا۔ اگر صدر زرداری شریف برادران کی نااہلی کے فوراً بعد ان کو فون کرتے اور کہتے کہ وہ اپنا نمائندہ وزیراعلیٰ کے لئے نامزد کریں اور آج شام ہی پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوگا جس میں اس کا انتخاب کیا جائے گا۔ ساتھ ساتھ صدر ان کو یہ بھی کہتے کہ اگلے چند روز میں ان کی نااہلی کو ختم کرنے کیلئے قانون بنایا جائے گا تو شریف برادران کا غصہ ستر فیصد کم ہوجاتا اور پیپلزپارٹی کو ہزیمت اور نقصان سے بچایا جاسکتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشیر داخلہ اور گورنر پنجاب نے سبز باغ دکھا کر صدر زرداری کو ٹریپ کیا اور پی پی پی کو پنجاب جو ایک زمانے میں اس کی مقبولیت کا قلعہ تھا میں کہیں کا نہ چھوڑا۔
دوسری طرف سیاسی طور پر شریف برادران کے وارے نیارے ہو گئے ۔ اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران پہلی بار نوازشریف کی عوامی مقبولیت اسٹریٹ پاور کی شکل میں سامنے آئی اور اس نے نہ صرف پی ایم ایل این کی اعلیٰ قیادت بلکہ ہر ایک کو حیران کردیا ۔ تمام حکومتی اندازے ریت کا پہاڑ ثابت ہوئے۔ رحمن ملک اور سلمان تاثیر نے صدر زرداری کو قائل کیا تھا کہ لانگ مارچ ایک بڑی ناکامی ثابت ہوگا ۔ عوامی طاقت کے بل بوتے پر نوازشریف نے معزول ججوں کو بحال کروایا اور حکومت جس کو یہ کڑوی گولی نگلنی پڑی اس کا کچھ کریڈٹ نہ لے سکی سہرا نوازشریف کے سر بندھا ۔ نہ صرف یہ کہ پی ایم ایل این کی عوامی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا بلکہ بیرونی طاقتوں خصوصاً برطانیہ اور امریکہ نے نوازشریف کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیااور اسے ایک اہم متبادل قیادت کے طور پر لینا شروع کردیا ۔ قبل ازیں یہ ممالک نوازشریف کو کم اہمیت دیتے رہے ہیں مگر اب انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ اس وقت نوازشریف آصف زرداری سے زیادہ عوامی مقبولیت کے حامل ہیں اور صدر اور پی پی پی تیزی سے اپنی ساکھ کھو چکی ہے جس میں آنے والے کچھ عرصہ میں مزید اضافہ ہو جائے گا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دوسرے معزول ججوں کی بحالی شاید ممکن نہ ہوتی اگر شریف برادران نااہل نہ ہوتے ان کی پنجاب میں حکومت برطرف نہ ہوتی اور گورنر راج نہ لگتا۔ ان تمام اقدامات نے نوازشریف کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جب ان کا موجودہ جمہوری سسٹم میں ”حصہ “ ناپید ہو گیا تو انہوں نے سوائے اس کے وہ یکسوئی سے حکومت کی نیند حرام کریں لانگ مارچ میں مکمل طور پر شامل ہوں اور تن، من، دھن کی بازی لگا دیں کوئی راستہ نہ رہا ۔ حالانکہ پچیس فروری سے قبل پی ایم ایل این وکلا ء کے لانگ مارچ میں اس طرح شرکت نہیں کرنا چاہتی تھی جس طرح اس نے بعد میں کیا بلکہ وہ تو دھرنا دینے کے خلاف تھی وہ یہ کہہ رہی تھی کہ وکلاء قیادت نے اس کو اعتماد میں نہیں لیا ۔حکومت کو اپنے احمقانہ اقدامات کی وجہ سے وہ کرنا پڑا جو وہ پچھلے ایک سال سے نہ کرنے پر بضد تھی شہبازشریف حکومت کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں بحالی کے بعد پی پی پی پنجاب میں بڑی مشکل میں گھر گئی ہے ۔ تاہم اس سارے ڈرامے میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ابھر کر سامنے آئے ہیں ان کی وجہ سے سیاسی نظام پٹڑی سے اترتے اترتے بچا ۔ اس ڈرامے میں وزیراعظم آرمی اپوزیشن اور بیرونی طاقتیں ایک طرف تھیں اور صدر زرداری تن تنہا دوسری طرف۔ظاہر ہے کہ صدر میں مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہوسکتی تھی لہذا انہیں پسپا ہونا پڑا۔