• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلبھوشن کیس ، ہمارے دلائل اچھے نہ تھے، قائل نہیں کرپائے ،بیرسٹرراشد اسلم

کراچی ( ٹی وی رپورٹ)عالمی عدالت انصاف نے سب سے پہلے پاکستان کی درخواست تھی کہ اس عدالت کو سماعت کا اختیار نہیں ہے وہ مسترد کردی ہے ، دوسرا یہ کہ کلبھوشن جادیو کی جان کو جو خطرات لاحق ہیں پاکستان  انشور کرے کہ اسے executeنہیں کیا جائے گا یہ دوسرا آرڈر عدالت نے دیا ہے ۔ اس عدالت نے بنیادی طور پر آل اکاؤنٹ کے اوپر ہندوستان کی جانب سے کی جانے والی درخواست جو کہ آرٹیکل 36 کے سیکشن ون اور 2کے تحت تھی ویانا کنونشن کے اس کو پوری طریقے سے تسلیم کرلیا ہے اور اس کے بعد اب کوئی گنجائش نہیں بچتی کہ پاکستان کے لئے یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ عدالت کے اس فیصلے کے خلاف جاسکے گو کہ پاکستان کے وکیل بیرسٹر خاور قریشی نے یہ یقین دہانی عدالت کو اپنے دلائل کے دوران کرادی تھی کہ ایسی کوئی Urgency نہیں ہے اور ناں ہی executeکا کوئی ٹائم مقرر ہے ۔آرٹیکل 36 ویانا کنونشن کے سیکشن ون اور 2کے تحت ہندوستان نے جو درخواست دی تھی کہ کلبھوشن یادیو جو کہ جاسوس ہے اس کی جان کو لاحق خطرات ہیں اور کونسلنگ اس کو دی نہیں گئی اور کونسل نہ دینے کی بنیاد پر ان کی ویانا کنونشن کے اندر یہ کیس سماعت کا اختیار رکھتا ہے اور ویانا کنونشن 36 کے تحت ہندوستان نے پاکستان کو کئی دفعہ درخواست بھی کی کہ ان کو کونسلنگ کرنے دیں تو پاکستان نے جو موقف عدالت میں اختیار کیا تھا وہ یہ تھابیرسٹر خاور قریشی کے مطابق کلبھوشن یادیو جو ہیں وہ دہشت گردی اور جاسوسی کے زمرے میں آتے ہیں اور ویانا کنونشن میں اس کو سماعت نہیں کیاجاسکتا دہشت گردوں کے لئے لیکن جہاں تک تعلق ہے کسی نارمل قیدی کا اس میں وہ فعال کرتا ہے ویاناکنونشن ۔ لیکن عدالت نے یہ ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ ویانا کنونشن کا اطلاق ہوتا ہے کلبھوشن یادیو پر سو اس لئے پاکستان کو اسے ہر صورت میں کونسلنگ دینی چاہئے تھی اب عدالت نے یہ آرڈر کیا ہے کہ ان کی جان کو جو خطرات لاحق ہیں اس کو ارجنٹ بنیادوں پر سیکیور کیا جائے اور ایسا کچھ نہ کیا جائے جس سے پھانسی پر عملدرآمد روکا جائے اور کیونکہ بیرسٹر خاور قریشی نے کہا تھا کہ اس قسم کی کوئی Urgencyنہیں ہے عدالت نے ان کے اس دلائل کو بھی مسترد کردیا اور کہا کہ بالکل Urgencyہے اور فوجی عدالت انہیں سزا دے سکتی ہے پھانسی دے سکتی ہے گو کہ ابھی تک اس کا اعلان نہیں ہوا ہے کہ کس تاریخ کو ان کو executeکیا جائے گا ۔ تو اس سارے اکاؤنٹ کے اوپر پاکستان نے جتنے بھی اعتراضات اٹھائے تھے ویانا کنونشن کے حوالے سے عدالت نے آرٹیکل 41 کا پہلا پیرا ہے اس کے تحت اس کو قبول کرلیا ہے کہ اس عدالت کو اس کو چلانے اور اس کی سماعت کرنے کا اختیار حاصل ہے اور پاکستان کو حکم دیا ہے کہ Urgentبنیادوں پر کلبھوشن یادیو کی جان کو لاحق خطرات کو دور کیا جائے ۔ اینکر : ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کا پیرا ایک اس کو یہ حق دیتا ہے کہ کونسل رسائی ملے یہی مینشن کیا ہے جج نے بھی ؟ خالد حمید فاروقی : عدالت نے کہا ہے کہ ویانا کنونشن کا آرٹیکل 36 کا جو سیکشن 8 ہے اس کے تحت ، مختلف ممالک کے ہر قیدی کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کی ریاست اس کی کونسلنگ دے سکے اس ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ ناں صرف وہ اسسٹنس کرسکے بلکہ اس مختلف ریاست کے قیدی کو اس کے مطابق تمام حقوق جو اس کو ملتے ہیں ویانا کنونشن کے تحت اور عالمی عدالت انصاف کے تحت ریاست ان کو ان حقوق کے بارے میں بتائے ان سے ملاقات کرے اور دوسری ملاقاتوں کی جو درخواستیں گئی ہیں ان پر بھی عمل کیا جائے ۔ وقت…15:31 اینکر : قونصلر رسائی دی جائے کی کلبھوشن یادیو کو یہ کہا گیا ہے اس فیصلے میں ، اب کلبھوشن کے معاملے کو اگر دیکھا جائے تو اس میں سب سے پہلا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ ایک جعلی پاسپورٹ پر پاکستان آیا اور پہلے تسلیم ہی نہیں کیا گیا کہ وہ بھارتی شہری ہے تو بھارتی شہری ہونے کی حیثیت سے یا ڈپلومیٹ کا جو کور ہے ویانا کنونشن میں وہ کلبھوشن کو مل سکتا ہے ؟سینئر قانون دان سلمان اکرم راجہ ;یہ معاملہ عالمی عدالت میں ہے اور عالمی عدالت نے بادی النظر یہ کہہ دیا ہے کہ ویانا کنونشن کے تحت جو حقوق ہیں وہ حاصل ہے یادیو کو بھی اور بھارت کو بطور ریاست یہاں معاملہ قونصلر ایکٹرز کا ہے ۔ ڈپلومیٹک کمیونٹی کا یا ڈپلومیٹ معاملہ نہیں ہے کوئی بھی شہری کسی دوسرے ملک کا جو ویانا کنونشن کے آتا ہے اس کے ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ گرفتار ہوتا ہے تو اس تک رسائی حاصل کرسکیں اس ملک کے ایمبیسی کے افراد جو ہیں یہاں پر دوسرا معاملہ تھا کہ کلبھوشن یادیو اگر بھارتی شہری ہے تو کیا بھارتی حکام کو یہ حق حاصل تھا کہ اس تک رسائی حاصل کرتے اور اس کے لئے کوئی قانونی اگر کوئی وکالتی امداد دینا تھی تو وہ اس کو فراہم کرتے یہاں یہ معاملہ تھا عالمی عدالت انصاف کے سامنے اور آج بھی عالمی عدالت انصاف نے یہ کہا ہے کہ بظاہر بادی النظر میں یادیو بھارتی شہری ہے او راس حوالے سے بھارتی حکام کا یہ حق تھا کہ اس تک رسائی حاصل کرتے ۔ اینکر :کیا عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ پاکستان اس فیصلے کو ماننے کا پابند ہے ؟ سلمان اکرم راجہ :پابند ہے ہم نے عالمی عدالت انصاف کی جو حدود ہے اس کو قبول کیا ہوا ہے اور اگر آپ اس فیصلے کو نہیں مانتے تو یہ تو نہیں ہوگا کہ وہ فوج آپ پر بھیج دیں گے لیکن آپ عالمی برادری سے کٹ جاتے ہیں اور پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں کیونکہ دنیا کے تمام ممالک عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو مانتے ہیں بالعموم بہت ہی شاذ و نادر ایسا ہے کہ کوئی ماننے سے انکار کردے اور عالمی برادر سے اپنے آپ کو علیحدہ کرلے ۔
تازہ ترین