آج کے دور میں بجلی کی اہمیت، ضرورت بلکہ ناگزیریت بالکل واضح ہے۔ کسی بھی ملک کی اجتماعی زندگی کاکوئی بھی شعبہ بجلی کے بغیر کام نہیں کرسکتا۔ اخبارات چھاپنے کے لئے بجلی درکار ہے، ہسپتالوں میں آپریشن کرنے کے لئے بجلی درکار ہے، ہسپتالوں کی لفٹ چلانے کیلئے بجلی درکار ہے، مریضوں کے ایکسرے اور ٹیسٹ کرنے کیلئے بجلی درکار ہے، ٹریفک کانظام درست رکھنے کے لئے بجلی کے بغیر گزارہ نہیں غرضیکہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ بجلی کی ضرورت سے مستغنی نہیں لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ بجلی کی فراہمی کی صورتحال روز بروز خراب سے خراب تر ہوتی چلی جارہی ہے جس کی وجہ سے صنعت اور زراعت دونوں تباہ ہو رہی ہیں۔ بچوں کیلئے امتحانوں کی تیاری ناممکن بنتی جارہی ہے۔ گھریلو خواتین اور دوسروں کیلئے فریج اور ریفریجریٹر چلانا اور استعمال کرنا ناممکن ہورہا ہے۔ بجلی کی کمی کی وجہ سے جھونپڑی میں رہنے والا مزدور بھی متاثر ہو رہا ہے۔ کاروبار ٹھپ ہوتے چلے جارہے ہیں اور یہ حالت اس امر کے باوجود ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ وزیر پانی و بجلی جولائی اور اگست میں بجلی کی صورتحال اور زیادہ خراب ہونے کی وعید سنا رہے ہیں۔ وہ جب سے اقتدار میںآ ئے ہیں یہی کہہ رہے ہیں کہ بجلی کی فراہمی کی صورتحال بہت جلد اچھی ہو جائے گی۔ ہم اس کیلئے بڑے اقدامات کر رہے ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ
مریض عشق پہ رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
ایسے میں پاکستان کے عوام کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کریں، کس کے آگے جا کر فریاد کریں اور کس سے انصاف چاہیں۔ بجلی کے محکمے کی حالت تو بقول فیض# یہ ہے:
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
کیا بجلی کی کمی کا مسئلہ واقعی لاینحل ہے؟ ہرگز نہیں۔ آج آپ آئی پی پیز کو ان کے واجبات کی ادائیگی کردیں بجلی کی کمی آن کی آن میں دور ہو جائے گی۔ آج آپ صدارتی محل سے لے کر ڈپٹی کمشنر کے گھر میں قمقمے جلانا بند کردیں، فالتو روشنیاں روک دیں، ہر سطح کی سرکاری دعوتوں میں بے تحاشا روشنی کا استعمال ختم کر دیں بجلی کی کمی دور ہوجائے گی۔ ابھی پچھلے دنوں ایک وفاقی وزیر جناب خورشید احمد شاہ نے اپنے ایک بچے کی شادی کی تو اتنی روشنیاں جلائیں کہ ان کے گھر بار کے علاوہ آس پاس کی سڑکیں بلکہ آبادیاں روشن ہوگئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کی باقاعدہ اجازت لی تھی اور اس کا بل ادا کیا تھا۔ ان کا یہ دعویٰ درست ہوگا لیکن انہیں اتنی بجلی جلانے کی اجازت آخر کیوں دی گئی؟ کیا محض اس کی قیمت مل جانے سے یہ سارا اسراف و تبذیر جائز ہوگیا؟ ایک وفاقی وزیر کومحض بل ادا کرنے اور اجازت حاصل کرنے کے علاوہ بھی ملکی مفاد کو پیش نظر رکھنا چاہئے تھا اور ایک ذاتی خوشی کے موقع پر قومی خوشی کاخیال بھی رکھنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ایک سید خورشید شاہ پر ہی کیا موقوف ہے۔
ایوان صدر سے لے کر نیچے تک تمام سرکاری اہلکار اس جرم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ جناب پرویز اشرف اپنے علاقے گجرخان میں ایک لمحے کیلئے بھی بجلی بند نہیں ہونے دیتے۔ کیاان کے علاقے کو کوئی سرخاب کا پرلگا ہواہے؟ کیا پاکستان کے غریب اور پسماندہ لوگوں کابھی یہ حق نہیں ہے کہ انہیں کم از کم اتنی سہولت نہ سہی جتنی گجرخان کے لوگوں کو میسر ہے کچھ نہ کچھ سہولت تو انہیں میسر ہو لیکن پاکستان میں آج تک کس حکمران نے غریب اور پسماندہ لوگوں کا خیال کیا ہے۔ چند استثناء شاید ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو اور محترمہ بینظیر بھٹو ہوں جو روایت کے مطابق وزیراعظم ہاؤس کی بتیاں خود بند کیاکرتی تھیں، جونیجو صاحب نے وزیراعظم ہونے کے باوجود سادگی اختیار کی حتیٰ کہ جرنیلوں کو بھی سوزوکیوں میں بیٹھنے کا حکم دے دیا۔ جناب غلام اسحق خان بڑے عوام دوست سمجھے جاتے تھے لیکن ان کے دور میں بھی ایوانِ صدر میں روشنی کا ضیاع روکانہیں گیا اور وہی اللے تللے جاری رہے جو پہلے حکمرانوں کا معمول تھا۔ میاں نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو ایوانِ وزیراعظم میں روزانہ بھاری مقدار میں گوشت لایا جاتا تھا اور ہر آنے جانے والے کی شاہانہ ضیافت کی جاتی تھی۔ میاں صاحب خود ایک مالدار آدمی ہیں لیکن نہ معلوم کیوں وہ وزیراعظم ہاؤس میں اس قدر اسراف و تبذیر کی اجازت دیتے تھے؟ کیامحض اس لئے کہ یہ مفت کا پیسہ تھا۔ یہ پیسہ مفت کا نہیں تھا بلکہ غریبوں، مزدوروں، مفلسوں، محتاجوں، گھریلو صارفین اور عورتوں اوربچوں کا پیسہ تھا جس کا صحیح استعمال ہوناچاہئے تھا لیکن میاں صاحب جیسے عوامی اور مقبول لیڈر بھی بجلی کا ضیاع نہ روک سکے۔ ان کے بھائی میاں شہبازشریف بہت بڑے منتظم ہیں۔ صوبے کی بے مثال خدمت کررہے ہیں۔ صوبے کی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں انہوں نے انقلابی اصلاحات نافذ نہیں کیں۔ فی الواقع میاں شہباز شریف اس صوبے کی تاریخ کے سب سے اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں لیکن ان کے دفاتر اور ان کے ماتحتوں کے دفاتر بجلی کے استعمال میں کمی کی کوئی نظر آنے والے کوشش کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ میاں شہباز شریف کے دور کے چیف سیکرٹری جناب جاوید محمود میرے بھائیوں کی طرح ہیں۔ میرے ضلع سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی اہلیہ میری بڑی بیٹی کی رفیق کار ہیں۔ وہ بھی میاں شہباز شریف کی طرح بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ اتنے اچھے کہ صوبے کو عمدہ طریقے سے چلانے کے لئے انہوں نے اپنی صحت کا خیال بھی نہیں رکھا۔ہم یہ کہنے پر مجبورہیں کہ جناب پرویز اشرف کی طفل تسلیاں سن سن کر پاکستان کے عوام عاجز آچکے ہیں۔ وقت ہے کہ وہ عملی طور پر اب کچھ کرکے دکھائیں تاکہ لوگوں کو یقین آسکے کہ ان کے حکمران ان کے مسائل حل کرنے میں مخلص ہیں۔
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں
ہمیں خوشی ہے کہ راجہ صاحب نے اب یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے گھر میں بھی بجلی جاتی ہے اور وہ جنریٹر استعمال نہیں کرتے۔ بہتر ہوتا کہ وہ یہ وضاحت بھی کردیتے کہ گجر خان کے ہر گھر میں بھی یہی صورتحال ہے یا لوگوں کا یہ دعویٰ درست ہے کہ وہاں کبھی بجلی نہیں جاتی۔
(اگرچہ وقتی طورپر عوام کو لوڈشیڈنگ سے کچھ ریلیف ملا ہے لیکن خود وزیر بجلی و پانی کہہ چکے ہیں جولائی اگست میں صورتحال بہت خراب ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی دائمی حل تلاش کیا جائے)