جب ریاستوں کے درمیان تلخی انتہائی حدوں کو چھونے لگے اوررابطے کی معروف راہیں محدودہوتی دکھائی دیں، تو ٹمپریچر کم کرنے کے لئے رابطے کی غیر معروف پگڈنڈیوں سے کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ٹیڑھی میڑھی راہوں کے اس سفر کو بیک ڈور ڈپلومیسی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایک طرح کی غیر روایتی سفارت کاری، جس نے کرہ ارض کو کئی بار یقینی تباہی سے بچایا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل کی نوعیت بھی کچھ اس قسم کی ہے کہ معمول کے تعلقات کی محض خواہش ہی کی جاسکتی ہے اور عملی طور پر ’’بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ والا معاملہ ہے۔ ایک قصہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر دونوں جانب سے آسمان کو چھوتی انا۔ مبادا سبک سری کی تہمت لگ جائےتو ایسے میں عقبی دروازے پر دستک بغیر چارہ نہیں رہتا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے عہد اقتدار میں مسئلہ کشمیر کو کسی کنارے لگانے کے لئے بیک ڈور چینل کا استعمال کثرت سے کیا تھااور ان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری آج بھی اس چینل کی اہمیت کے معترف ہیں۔
سجن جندال کی حالیہ پاکستان یاترا فی لحقیقت اسی قسم کی سرگرمی تھی۔ تلخی کی انتہائی حدوں کو چھوتے پاک بھارت تعلقات کو قدرے نارمل کرنے کی ایک کوشش۔ وزٹ کے حوالے سے بہت کچھ کہا جاچکا ہے۔ کسی نے کہا کہ ویزا تو اسلام آباد اور لاہور کے لئے تھا تو موصوف مری کیسے چلے گئے؟ کوئی جواز لایا کہ دراصل وہ اسلام آباد کی اسپاٹ لائٹ سے دور وزیراعظم کے ساتھ خفیہ مذاکرات کرنا چاہتے تھے۔ بعض نے ملاقات میں فارن آفس کی عدم موجودگی میں سازش تلاش کی تو کسی نے کہا کہ اگر وزٹ پرائیویٹ تھاتو فارن آفس اہلکاروں نے ایئر پورٹ پر استقبال کیوں کیا۔ یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ پولیس رپورٹنگ سے چھوٹ کیوں دی گئی۔ بہرحال تان بھی سب کی اسی پر ٹوٹی کہ موصوف کلبھوشن یادیو کو رہا کرانے آئے ہیں۔ البتہ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما دوسری جانب جا نکلے فرمایا، کہ اصل میں پاکستان اسٹیل مل جندال کے ہاتھ بیچی جارہی ہے اور ساتھ ہی وارننگ بھی دے دی کہ ذوالفقار علی بھٹو کی اس نشانی کے ساتھ یہ سلوک کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔
جب جندال وزٹ کے حوالے سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اور ہر کوئی اپنی منطق بگھار رہا تھا۔ تو مریم نواز کا ٹوئیٹ سب سے مختلف تھا۔ لکھا: ’’مسٹر جندال وزیراعظم کے دیرینہ دوست ہیں۔ ان کی ملاقات میں خفیہ والی کوئی بات نہیں اور معاملے کو ضرورت سے زیادہ نہیں اٹھایا جانا چاہئے۔‘‘ محترمہ کے اس ٹویٹ کو بھی حسب توقع ہوا میں اڑا دیا گیا اور مضحکہ خیز تبصرے بھی ہوئے۔ کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ بی بی کا یہ مختصر سا تبصرہ اپنے اندر جہان معافی لئے ہوئے ہے اور اس میں وزٹ کے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ساتھ تعلق کی طرف واضح اشارہ موجود ہے۔
تعلقات کا ڈول ڈالنے میں موصوف کا کردار سہولت کار کا رہا ہے اور گزشتہ چند برسوں کے دوران دونوں طرف سے اعلیٰ سطحی روابط اس کی دلیل۔ 2014 میں کھٹمنڈو میں ہونے والی سارک سمٹ کے موقع پر میاں نواز شریف اور نریندر مودی کے مابین ہونے والی ملاقات جندال ہی کی مساعی کا نتیجہ تھی۔ اور جندال کی بیک چینل ڈپلومیسی کے سبب ہی جولائی 2015ء میں روس کے شہر اوفا میں ہونے والی شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (SCO) سمٹ کے موقع پر دونوں رہنمائوں کی ایک بار پھر گھنٹہ بھر کی ملاقات ہوئی تھی۔ جسے سفارتی حلقوں نے بے حد مفید Very Productive قرار دیا تھا۔ اس موقع پر جاری ہونے والے اعلامیہ کے مطابق دونوں ملکوں نے خطے سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا اور اس مقصد کے لئے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات پر بھی اتفاق ہوا۔ ماہی گیروں کی رہائی اور مذہبی ٹور ازم کے فروغ کے حوالے سے بھی اقدامات کا فیصلہ ہوا۔ وغیرہ وغیرہ اور پھر دسمبر 2015ء میں وزیراعظم نواز شریف کی نواسی کی شادی کے موقع پر وزیر اعظم مودی کی رائیونڈ آمد کے پیچھے جندال ڈپلومیسی کو رول آئوٹ نہیں کیا جاسکتا۔
حیرت کی بات کہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ہم جندال کے کردار کو ایک محدود زاویے سے دیکھ رہے ہیں کہ موصوف یہ سب کچھ میاں نواز شریف یا نریندرمودی کے ایما پر کررہے ہیں اور ہماری تمام تر بحث تمحیص اس دائرے باہر نہیں نکل پاتی۔ سرحد کے دونوں طرف یہی کچھ ہورہا ہے۔ حتیٰ کہ چند روز پیشتر معروف بھارتی مصنف اور صحافی پریم شنکرجھا بھی یہی لکیر پیٹتے دکھائی دیئے کہ جندال کو پاکستان مودی صاحب نے بھیجا تھا، یا وہ نواز شریف صاحب کی دعوت پر آئے تھے۔
اس قسم کےسطحی مباحث سے اوپر اٹھ کر دیکھیں تو منظرنامہ کچھ اور ہی دکھائی دیتا ہے۔ کزاقستان کے شہر آستانہ میں ہونے والے 2005 کے SCO سمٹ اجلاس میں پاکستان اور بھارت کو مبصر کا اسٹیٹس حاصل ہوا تھا۔ اب بارہ برس بعد 7-8 جون کو ایک بار پھر آستانہ میں ہی SCO سمٹ اجلاس ہونے جارہا ہے۔ جس میں دونوں ملکوں کو تنظیم کی مکمل رکنیت عطا کی جائے گی۔ پاک بھارت مخاصمت اور خطے کی کشیدہ صورت حال کو SCO کے رکن ممالک اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور چاہتے ہیں کہ جون سے پہلے پہلے دونوں ممالک کے مابین خیرسگالی اس حد تک بحال ضرور ہوجائے کہ سربراہی اجلاس میں کسی قسم کی بدمزگی نہ ہونے پائے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ برصغیر کے دونوں حریف ممالک کو SCO کی رکنیت اس شرط پر دی جارہی ہے کہ وہ دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنائیں گے، اور تنظیم کے مفاد و مقاصد کو بڑھاوا دیں گے۔ باخبر سفارتی حلقے آستانہ میں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کے حوالے سے بھی بے حد پر امید ہیں۔ سربراہی اجلاس کے سائیڈ لائنز پر جس کے انعقاد کی کوششیں جارہی ہیں۔ ایسے میں باہمی سرد مہری کو کم کیا جانا ازبس ضروری تھا، جس کے لئے جندال صاحب نے اہم کردارادا کیا ہے۔
.