• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی آرمی چیفس کیلئے قومی زندگی کے اہم پہلوئوں پر بات کرتے ہوئے ڈیفنس پر لیکچرز دینا ایک معمول کی بات ہے، چاہے وہ اس شعبے کے ماہر ہوں یا نہ ہوں۔ دوسری طرف قوم بھی نہایت یکسوئی اور انہماک سے افسران کے خطاب سے دانائی کے گوہر پارے چننا خود پر فرض کر چکی ہے۔ تاہم اس بابت ایک ناقابلِ تردید سچائی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ فوج کا سربراہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ اُسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اُس کے کہے گئے الفاظ کے سامنے سامعین سراپا اطاعت ہوتے ہیں۔ ورنہ یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ اگر کوئی شخص کسی جنگی مشین کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہے تو وہ کائنات کے سربستہ راز بھی دریافت کر چکا ہوگا۔ تاہم جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا کہ جب اُنہوں نے مدعو کردہ لکھاریوں اور دانشوروں سے بات کی تو اُنھوں نے بقراطی جنرل ہونے کا دکھاوا نہ کیا۔ انتہا پسندی کے موضوع کے سوا، جہاں اُنھوں نے قدرے گہرائی سے بات کی، وہ ایک سپاہی کی طرح دوٹوک اور قطعی دکھائی دئیے۔ اُن کی طرف سے ارزاں کردہ پیغامات عملی اور اکتسابی تھے، اور اُن کا تعلق ایسے فوری معاملات سے تھا جو اُنہیں درپیش تھے۔
عالمی عدالتِ انصاف کے کلبھوشن پر عبوری فیصلے کے بعد بلند ہونے والی بے ہنگم آوازوں کے شور میں تین نکات نظر سے اوجھل ہو گئے (1)فوج کو جملہ مسائل کا حل سمجھنے والے تمام افراد اور گروہوں کی بلند و بالا توقعات کی بابت فوج کی تحدید (limitation)کی وضاحت کرنے والا دوٹوک بیان، (2)اُن کیلئے دو فیصلوں (ایک غالباً مسترد کرنے والی ٹویٹ، اور دوسرا مذکورہ ٹویٹ کو واپس لینا) سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک غلط فیصلہ مقبول عام، جبکہ ایک درست فیصلہ غیر مقبول ہو سکتا ہے، (3)اس پر تبصرہ بھی کیا گیا کہ کس طرح اُنہیں اور فوج کو بطور ایک ادارہ ہدف بنایا گیا ہے (غالباً اشارہ سوشل میڈیا اور کچھ نام نہاد مین اسٹریم میڈیا آئوٹ لیٹس کی طرف تھا) یہ بیانات ایک ہی ایشو کے مختلف انداز میں پیش کئے گئے اظہاریے ہیں۔ فوج کو ملک کے ہر درد کا درماں نہیں سمجھنا چاہئے، نیز اگر کوئی فوج کے کردار کے بارے میں حقیقت پسندانہ تبصرہ کرے تو اسے میڈیا کی چاند ماری کا نشانہ نہیں بننا چاہئے، چاہے وہ چرب زبان درباریوں، خوشامدیوں اور شب خون کی آس میں جینے والے لکھاریوں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ جنرل باجوہ اپنے پیغام کو کیوں آگے بڑھانا چاہتے تھے، اس کی وجوہ ظاہر ہیں۔ ملک کے سیکورٹی معروضات پر نظر رکھنے کی تربیت سے مزین ایک کمانڈر کے طور پر وہ ملکی دفاع کی موجودہ نازک صورتحال کا دوسروں سے بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی جان لیوا خطرہ تو نہیں، لیکن اس کی وسعت ملک کی تمام جغرافیائی حدود کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ دو محاذ گرم ہیں، جبکہ ایرانی بارڈر سلگ رہا ہے۔ جس دوران سی پیک کی شکل اور فعالیت واضح ہوتی جا رہی ہے، چینی دوست توقع کرتے ہیں کہ شمال مشرقی سرحد سے لیکر گوادر کی بندرگاہ تک اس راہداری سے گزرنے والی اشیاء کو مکمل سیکورٹی فراہم کی جائے اور یہ کوئی آسان کام نہیں۔
اس وقت ملک میں داخلی طور پر جاری آپریشنز کے اختتام کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی، تو فوجی کمانڈر اُس دبائو کو ضرور محسوس کر رہا ہوگا جو اس کے ادارے کے سامنے مختلف چیلنجز کی صورت موجود ہے۔ چنانچہ اس وقت فوج کسی طور سیاسی دلدل میں اتر کر اسے صاف کرنا، گورننس کی گتھیاں سلجھانا اور نظام کو درست کرنا نہیں چاہے گی۔ جنرل قمر باجوہ ایک پیشہ ور سپاہی کی طرح صاف زبان میں کہہ رہے ہیں کہ خاکی کو نجات دہندہ سمجھنے والے نہ صرف مغالطے کا شکار ہیں بلکہ وہ ملک کے تزویراتی ماحول سے بھی لاعلم ہیں۔
تاہم جنرل صاحب کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ فوج کو نجات دہندہ سمجھنے والا بریگیڈ قوم کو بچانے کیلئے فوج کو اس کا ’’فرض‘‘ یاد دلانے کے فریضے سے باز نہیں آرہا۔ اس بریگیڈ کے پیادہ سپاہی ادارے کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے رہتے ہیں کہ موجودہ سیاسی نظام منہدم ہو تو اس کے بعد ایک سنہری دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ من گھڑت خبرسازی کے دور (اور پاکستان میں) پُر فریب تجزیے کی فضا میں ایسی خبریں نئے میڈیا کے ذریعے جوانوں سے افسران تک برق رفتاری سے سفر کرتی ہیں۔ وہ زندگی کو دلکش التباسات میں رنگے ہوئے عدسے سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، اور یہ بات خطرناک ہے۔ مسئلہ اُس وقت زیادہ شدت اختیار کر جاتا ہے جب انتہائی نظریات رکھنے والے ریٹائرڈ افسران، جن کی ٹکسال شدہ محدود صلاحیتیں اُن کے کیرئیرز کو مختصر کرنے کا باعث بنیں، مقبولِ عام لہجہ اپناتے ہوئے ترازو سنبھال کر فیصلہ سناتے ہیں کہ صحیح کیا اور غلط کیا ہے۔ ڈان لیکس کے بعد میڈیا میں ایسی دہائی مچی کہ گویا قومی سلامتی کو دائو پر لگا دیا گیا ہو۔ ہر شام ٹی وی اسکرین کو رونق بخشنے والے سدا بہار ریٹائرڈ افسران، جن کی کپسول آسا فراست سے کون واقف نہیں، میں سے ایک کا کہنا تھا ’’قوم کو اتنا ارزاں فروخت کرنیوالوں‘‘ پر غداری کا مقدمہ بنتا ہے۔ معاملہ سلجھنے کے بعد اس خوفناک مہم کا ہدف نواز حکومت سے زیادہ فوجی قیادت بن گئی۔ آرمی چیف کو اس کے پیچھے اصل قصوروار کو تلاش کرنا ہو تو اُنہیں پتا چلے گا کہ اس مہم کی جڑیں جانی پہچانی سرزمین میں ہی پیوست ہیں۔ اس سے بلیک میلنگ اور بازو مروڑنے کی اس طاقت کا پتا چلتا ہے جو قومی وقار کے خود ساختہ محافظوں نے برسہا برس سے حاصل کر رکھی ہے۔ اس سے اس علت کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو ملک کے ایک وسیع طبقے کو کھوکھلی بیان بازی اور بے مغز بہادری کو ذہن میں اتارنے کی صورت لاحق ہو چکی ہے۔ اس بھڑک دار مہم کا نشانہ بننے والے کچے ذہن افسانوی خواہشات اور طلسمی تصورات کی دنیا بسا لیتے ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ تمام مسائل حل کرنے والے کسی طلسمی جنرل کی مارکیٹ بہت وسیع ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے اس کے حلقہ ٔ ارادت و نیابت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ عظیم ترین لیڈر (مشرف)، عظیم ترین مفکر (کیانی) اور عظیم ترین جنرل (راحیل شریف) کا پے درپے ورود تھا۔ عوامی مقبولیت کی چاشنی اور موقع پرستی کی سیاست (جیسا کہ عمران خان کا امپائر اور نواز شریف کا میمو گیٹ) کا امتزاج ایک پرکشش ترغیب کے طور پر موجود رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے اُن کیلئے بھی مواقع کی کھڑکی کھلی رہتی ہے جو درحقیقت سیاسی میدان میں کوئی مقام نہیں رکھتے۔ لیکن پرکشش ترغیب کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ اسکی وجہ سے اداروں کی سمت مڑ جاتی ہے، اور وہ اپنے لئے ایسے اہداف طے کرلیتے ہیں جو یا تو اُن کی صلاحیت سے باہر ہوتے ہیں، یا اُن کی طرف توجہ مرکوز کرنے سے نظام انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔
جنرل قمر باجوہ اس ترغیب کی راہ میں آنے والی کھائی کو سمجھتے ہیں۔ اُنہوں نے ٹویٹ کی آنچ کم کردی ہے، نیز دیگر معاملات کو درست کر رہے ہیں۔ اُن کے سامنے حقیقی چیلنج اب آیا ہے کیونکہ عوامی مقبولیت کے ہاتھوں یرغمال شدہ ماحول میں درست کام کرتے ہوئے پسندیدگی کی سند لینا آسان نہیں ہوتا۔ سیمینار میں اُن کے بیانات حقیقت پسندانہ تھے، جن کی فوجی کمانڈروں سے توقع کی جاتی ہے۔ اُن کا پہلا فرض ہما کا شکار، جسکی شہ دینے والے کم نہیں ہوتے، کرنے کی بجائے اپنے آئینی اور پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی ہوتا ہے۔
بہرحال قومی بیانیے پر غلبہ رکھنے والی ایک ذہنیت اپنی جگہ پر موجود ہے جو نہ صرف قومی امور میں فوج کا کردار، بلکہ ایک نجات دہندہ کا کردار، چاہتی ہے۔ یہ ذہنیت آرمی چیف کے ایک آدھ خطاب سے تبدیل نہیں ہوجائیگی، اور پھر الفاظ کی رم جھم عادت کی چٹان کو نہیں بہا سکتی؟ آنیوالے دنوں میں پیش آنیوالے مختلف واقعات، الجھنیں، ترغیبات، جھوٹی خبریں، افسانوی تجزیے، سیاست دانوں کی حماقتیں وغیرہ فوجی قیادت کے اعصاب کا امتحان لیں گی۔ ابھی یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ کیا جنرل باجوہ ہر آزمائش کے موقع پر درست فیصلہ کرتے ہیں جو اگرچہ غیر مقبول ہو، یا پھر وہ بھی اسی راہ پر چل نکلتے ہیں جس پر بہت سے قدموں کے نشانات ثبت ہیں۔ فی الحال تو پردہ اٹھنے کی نگاہیں مایوس ہیں اور جنرل صاحب نقیبوں سے بے نیاز دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بے نیازی ہماری کم نصیبی نہیں، خوش بختی ہے۔

.
تازہ ترین