• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چار سال سے پیپلزپارٹی کا ایک ہی مطالبہ ہے جسے وہ بار بار دہرا رہی ہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان فوراً مستعفی ہوں۔ وہ کئی بار وزیراعظم نوازشریف کی ’’خیرخواہی‘‘میں کہہ چکی ہے کہ وزیرداخلہ کو برطرف کیا جائے کیونکہ وہ ان کی حکومت کے لئے بہت مشکلات پیدا کر رہے ہیں تاہم اس کے اس ’’مشورے‘‘ پر رتی برابر بھی توجہ نہیں دی گئی ۔ پیپلزپارٹی ہر صورت میں چوہدری نثار کو اہم سرکاری عہدے سے محروم کرنا چاہتی ہے ۔ اپنے مزاج کے مطابق وزیرداخلہ نہ تو پیپلزپارٹی اور نہ ہی کسی اور پر بلاجواز تنقید کر تے ہیں اور خواہ مخواہ سینگ پھنساتے ہیںتاہم جب ان پر کوئی بھی نکتہ چینی کرے تو وہ خاموش نہیں رہتے چاہے حملہ آور کوئی بھی ہو۔پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ وفاقی حکومت اس کی ہر قسم کی تنقید کو برداشت کرے کیونکہ وہ وفاقی اور پنجاب کی سطح پر اپوزیشن جماعت ہے ۔اس کے بہت سے رہنما ئوں میں خصوصاً قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سرفہرست ہیں جو ہر وقت چوہدری نثار کو آڑے ہاتھوں لیتے رہتے ہیں۔اب کچھ عرصہ سے وزیر داخلہ انہیں براہ راست جواب دینے کی بجائے اپنے ترجمان کے ذریعے اپنا نقطہ نگاہ بیان کرتے ہیں۔ نوازشریف کے پرانے قابل اعتماد ساتھیوں میں چوہدری نثار ان رہنمائوں میں شامل ہیں جو حالات چاہے کچھ بھی ہوں بندکمرے کے اجلاسوں اور دوسرے فورمز پر کھل کر بات کرتے ہیں اور انہیں بالکل پروا نہیں ہوتی کہ کسی کو ان کی رائے پسند آئے یا نہ آئے ۔پیپلزپارٹی کا وزیر داخلہ سے جھگڑا نیا نہیں ہے ۔ اس کے گزشتہ پانچ سالہ دور میں بطور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار حکومت پر سخت تنقید کرتے رہے ۔ان کے بہت سے سیاسی مخالفین بھی ان کی بطور چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بے مثال کارکردگی کے قائل رہے ۔ اس حیثیت میں انہوں نے 100ارب سے زائد کی رقوم ریکور کرا کر قومی خزانے میں جمع کروائیں ۔شاید ہی کوئی سیاست دان ہو جو اپنی تین دہائیوں سے زیادہ سیاسی زندگی میں بے داغ رہا ہو ۔ ان کے سخت مخالفین بھی ہر وقت ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ ان کی کسی مالی بے ضابطگی کو تلاش کریں مگر انہیں کبھی کامیابی نہیں ہوئی۔وہ مزاج کے بہت تیکھے ہیں اور کوئی بھی ان کے ساتھ لبرٹی نہیں لے سکتا۔
پیپلزپارٹی کا آخر چوہدری نثار کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟وہ کرپشن کے بہت خلاف ہیں اور پیپلزپارٹی کے بہت سے رہنما جن پر مالی ہیراپھیری کے سنگین الزامات ہیں کے خلاف تحقیقات سے پیچھے نہیں ہٹتے حالانکہ انہیں کئی بار اسلام آباد کے ’’بااثر حلقے‘‘ کہہ چکے ہیں کہ ہاتھ ’’ہولا ‘‘ رکھیں ۔ یہی صرف ایک مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی ان کے خلاف شائوٹنگ میچ میں مصروف رہتی ہے ۔ لیکن بعض اوقات تو انسان اپنی ہنسی نہیں روک سکتا کہ کن کن موقعوں پر پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا کہ چوہدری نثار کو مستعفی ہو جانا چاہئے ۔ وزیراعظم آفس نے ڈان لیکس کمیٹی کی رپورٹ کی سفارشات کے بارے میں ایک حکم نامہ جاری کیا جس پر آئی ایس پی آر کی طرف سے ’’ریجیکٹ ‘‘والاٹویٹ آگیا تو پیپلزپارٹی نے مطالبہ کر دیا کہ چوہدری نثار کو استعفیٰ دے دینا چاہئے حالانکہ وزیر داخلہ کا اس حکم نامے سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔جب چوہدری نثارنے اس ٹویٹ کو جمہوریت، نظام اور ملک کے لئے زہر قاتل قرار دیا اور کہا کہ اداروں کو ٹویٹس کے ذریعے بات نہیں کرنی چاہئے تو پیپلزپارٹی نے شور مچایا کہ چوہدری نثار کو مستعفی ہو جانا چاہئے ۔ کلبھوشن یادیو گرفتار ہوا اور اسے سزائے موت سنائی گئی تو پیپلزپارٹی نے چوہدری نثار پر زور دیا کہ وہ استعفیٰ دیں۔ جب بھی رینجرز کی سندھ میں تعیناتی کے بارے میں نوٹیفکیشن جاری کرنے پر کوئی تنازع کھڑا ہوا تو مطالبہ کیا گیا کہ وزیرداخلہ کو گھر چلے جانا چاہئے ۔ جب رینجرز نے ڈاکٹر عاصم حسین کو گرفتار کیا تو اسی خواہش کا اظہار کیا گیا ۔ جب شرجیل میمن کو نیب نے کچھ گھنٹوں کے لئے اسلام آباد میں روکا تو پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا کہ چوہدری نثار استعفیٰ دیں۔ جب آصف زرداری کے تین ساتھی ’’مسنگ ‘‘ ہو گئے تو بھی زور دیا گیا کہ وزیر داخلہ گھر چلے جائیں مگر جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان میں سے دو کو بلوچستان سے بازیاب کرایا تو پیپلزپارٹی اپنے پرانے الزام کو بھول گئی جو انہوں نے چوہدری نثار پر بار بار لگایا تھا اور بازیاب ہونے والے افراد کو مٹھائیاں کھلانے میں مصروف ہو گئی۔
اپنے ایجنڈے کے مطابق پیپلزپارٹی کو استعفیٰ کا مطالبہ ضرور دہرانا چاہئے تھا جب وزیر داخلہ کے حکم پر کروڑوں موبائل سمیں بلاک کی گئیں باوجود اسکے کہ موبائل کمپنیوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ پاکستان میں اپنا سارا کاروبار بند کر کے یہاں سے چلی جائیں گی ٗ جب وزارت داخلہ نے بین الاقوامی این جی اوز کے خلاف سخت کریک ڈائون کیا اور ان کے آپریشنز کو ریگولیٹ کیا ، جب لاکھوں جعلی شناختی کارڈ زبلاک کئے گئے ٗ جب ہزاروں فیک پاسپورٹ کینسل کئے گئے اور جب انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت آپریشن کئے گئے۔ پیپلزپارٹی ہر وقت چوہدری نثار کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتی رہتی ہے لہٰذا اب یہی بات رہ گئی ہے کہ بارش نہیں ہو رہی، بارش کیوں ہو رہی ہے ، سورج چمک رہا ہے، بادل چھائے ہوئے ہیں تو بھی وزیر داخلہ کے اپنے عہدے پر رہنے کا کوئی جواز نہیں ۔ جب چوہدری نثار نے بیرون ملک خصوصاً امریکہ سے بغیر کسی وجہ کے بے شمار ویزے جاری کرنے کا سلسلہ روکا اور ایف آئی اے کو یہ حکم دیا کہ کوئی بھی اگر ویزے کے بغیر پاکستان آئے تو اسے ایئرپورٹ سے واپس بھجوا دیا جائے تو بھی پیپلزپارٹی نے کافی شور مچایا تھا ۔تاہم یہ بات شاید اسکے علم میں نہیں ہے کہ کچھ عرصہ قبل شرمیلا ٹیگور بھارت سے براستہ واہگہ بارڈر پاکستان آئی تھیں ۔جب اسلام آباد میں’’بڑے گھر والوں‘‘ کو ان کی پاکستان میں موجودگی کا علم ہوا توانہوں نے اس کیلئے دعوت کا انتظام کیا ۔ دعوت سے فارغ ہو کر وہ سیدھی اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچیں تاکہ کراچی جاسکیں مگر انہیں ایف آئی اے نے روک لیا کہ وہ کراچی نہیں جاسکتیں کیونکہ ان کے پاس اجازت نہیں ہے۔ شرمیلا ٹیگور نے انہیں بتایا کہ وہ کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز بھارت جانا چاہتی ہیں مگر انہیں بتایا گیا کہ وہ پاکستانی قانون کے مطابق واہگہ بارڈر سے ہی واپس بھارت جاسکتی ہیں جس کے ذریعے وہ پاکستان میں انٹر ہوئی تھیں۔ ایک اور واقعہ بھی شاید پیپلزپارٹی کے علم میں نہیں ہے کہ جب ایک مسلمان ملک کا ملٹری وفد اسلام آباد ایئرپورٹ بغیر ویزے کے پہنچ گیا تو بڑا مسئلہ کھڑا ہو گیا کیونکہ اس کے لئے ویزا لینا ضروری تھا۔ اس وقت کے سیکرٹری داخلہ نے ایئرپورٹ پر ہی انہیں ویزے جاری کرنے کا انتظام کیا ۔ جب یہ بات وزیر داخلہ کے علم میں آئی تو انہوں نے سیکرٹری کی بھرپور کلاس لی اور بالآخر انہیں وزارت داخلہ سے کسی اور منسٹری میں جانا پڑا۔
نہ صرف پیپلزپارٹی بلکہ ہر اپوزیشن جماعت کا حکومت کو جائز اور ناجائز رگڑا لگانا حق ہے اور اسی طرح حکومت بھی انہیں جواب دینے میں حق بجانب ہے مگر اس میں بھی یقیناً کچھ نہ کچھ توازن برقرار رکھنا چاہئے ورنہ سوائے جگ ہنسائی کے کچھ نہیں ہوگا۔سیاست ہونی چاہئے مگر اس کے بھی کچھ پیرامیٹرز ہیںجن کو مد نظر رکھنا چاہئے ۔ ریڈ لائنز کو کراس کرنے کا نقصان نظام کو ہوتا ہے اور سیاستدانوں کا تمسخر اڑایا جاتا ہے ۔پیپلزپارٹی کو غصہ رینجرز پر ہے اور وہ ذمہ دار چوہدری نثار کو ٹھہراتی ہے کہ وہ رینجرز سے ساری کارروائیاں کروا رہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کی ناراضی اسٹیبلشمنٹ کے کچھ ایکشنز پر ہے اور وہ غصہ وزیر داخلہ پر اتارتی ہے حالانکہ وزیر داخلہ کا ایسی کارروائیوں میں کوئی دخل نہیں ہے۔

.
تازہ ترین