”یونیورسٹی آف گجرات“ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اور ان کی حکومت کا صرف اپنے شہر گجرات کے لئے ہی نہیں گجرات ،سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے تین ضلعوں پر مشتمل پنجاب کی”سنہری تکون“ کے لئے ایک خوبصورت ، بہت ہی قیمتی اور ہمیشہ یاد رہنے والا تحفہ ہے مگر اس تحفے کے پیکیج میں اس یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین بھی شامل ہیں، جنہوں نے اس دانش گاہ کی پہلی بنیادی اینٹ رکھی ہے اور کون نہیں جانتا کہ پہلی اینٹ کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ پہلی اینٹ ثریا تک لے جانے کے لئے تعمیر ہونے والی دیوار کو مریخ کے پڑوس میں اور جنت کو جانے والے راستے کو دوزخ تک بھی لے جاسکتی ہے۔پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے اس پیکیج کو قبول کیا۔
گزشتہ روز یونیورسٹی آف گجرات کے شعبہ ا بلاغ عامہ کے زیر اہتمام وائس چانسلر کی زیر صدارت” صحافت کی آزادی“ کے موضوع پر ایک مذاکرہ منعقدکرایا گیا جو اس فیصلے پر اختتام پذیر ہوا کہ جب تک بھوک، ظلم، زیادتی، بے انصافی، جہالت اور خوف سے آزادی نہیں مل جاتی دیگر تمام آزادیاں بے معنی اور جعلی ہوں گی جن میں صحافت کی آزادی بھی شامل ہے مگر یہ بھی تو سوچا جاسکتا ہے یا سوچا جانا چاہئے کہ بھوک، ظلم، زیادتی، بے انصافی ، جہالت اور خوف سے آزادی پانے کے لئے بھی صحافت کی بے معنی اور جعلی آزادی بھی بہت ضروری ہے۔ یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ صحافت کی بامعنی اور اصلی آزادی آج تک کسی بھی ملک اور معاشرے اور کسی بھی نظام حیات کو دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔ کہیں ہو ا ور وجود رکھتی ہو تو دکھائی دے چنانچہ صحافت کی آزادی جہاں بھی ہے اور جیسی بھی ہے اسے استعمال میں لاکر معاشرے کو جہاں تک ہوسکے بھوک، ظلم، زیادتی، بے انصافی، جہالت اور خوف سے نجات دلائی جائے۔
آج اگر صحافت کو کسی حد تک جھوٹی، سچی ، اصلی اور جعلی آزادی حاصل ہے تو یہ کسی حکومت یا نظام حکومت نے بھیک اور خیرات میں عطا نہیں فرمائی ۔ ہمارے بہت سارے ساتھیوں، صحافیوں نے ظلم و زیادتی برداشت کرکے، جیلوں کی سلاخوں میں زندگی گزار کر اپنی زندگیوں کی قربانیوں دے کر حاصل کی ہے اور ہمیں اس آزادی کو کسی ضابطہ اخلاق کی پابندیوں کے احترام کا عادی بنا کر محفوظ و مامون بنانا ہے اور پھر اس کے حلقہ اثر میں مسلسل اور متواتر اضافہ کرنا ہے اسے بامعنی اور اصلی آزادی صحافت میں تبدیل کرنا ہے۔
مذکورہ بالا مذاکرے میں وائس چانسلر ڈاکٹر نظام، پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر مغیث الدین شیخ اور چندکالم نگاروں نے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کے حوالے سے بہت سی دلچسپ ، فکر افروز ا ور معلومات افزاء باتیں کیں جن کو طلباء اور طالبات کی طرف سے واضح طور پر بھرپور پذیرائی ملی اور وائس چانسلر نئی اور پرانی نسلوں کے درمیان جس نوعیت کے ذہنی انٹرایکشن کی خواہش رکھتے ہیں اس کی اس مذاکرے کے دوران بہتات ہی نہیں فراوانی بھی دکھائی دی۔
بہت ہی حوصلہ افزاء منظر دیکھنے کو یہ ملاکہ گجرات یونیورسٹی میں بھی ابلاغ عامہ کے شعبے میں طالبات کی تعداد طلباء کے مقابلے میں اگر زیادہ نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے اور یہ بہت ہی اچھی بات ہے۔ زیادہ سے زیادہ طا لبات کو جنرنلزم کے شعبے میں آنا چاہئے۔ اس سے صرف تذکیر اور تانیث کے درمیان عدم توازن کی صورتحال ہی بہتر نہیں ہوگی صحافت میں دیانت ، ذہانت،بلوغت اور بلاغت کے علاوہ ملک اور قوم کے اصل بنیادی مسائل کی جانب توجہ بھی بڑھے گی۔ حالات و واقعات کو عورت کی نگاہ سے دیکھنے سے حالات اور واقعات بہت واضح شکل اور اپنی اصلی حالت میں دکھائی دیتے ہیں اور یہ سمجھ بھی آتی ہے کہ ہمارے حالات کو جوں کا توں رکھنے میں دلچسپی لینے والے بلکہ حالات کو مزید بگاڑنے کے عمل میں شامل لوگ عورت کے کیوں خلاف ہیں۔ عورت کو قومی زندگی کے عملی میدان میں داخل کیوں نہیں ہونے دیتے؟عورت کو گھروں کی چار دیواریوں ا ور چادروں کی چار گانٹھوں میں باندھ کر کیوں رکھنا چاہتے ہیں؟