باعلم اور باعمل ہونا دو مختلف وصف ہیں جو کاملیت کی حد تک بیک وقت فرد پر تقصیر میں بدرجہ اتم موجزن ہوںخال خال ہی ہوتا ہے۔
اقرا سےسرزمین خدا پر علم کا آغاز ہوااور اس کا سفر آج تک جاری و ساری ہے جس میں نیکی و بدی کا مقابلہ زوروں پر ہے۔ایک وہ بھی وقت تھاجب طاقتور ہی معاشرے میںنمایاں حیثیت و مقام پاتا تھا۔جیسے جیسے وقت بدلتا گیا طاقت کی جگہ ہنر اور علم نے لے لی۔ بات اس سطح تک جاپہنچی ہے کہ آج علم کا ہی چاروں طر ف دور دورہ ہے جسکی تلقین قرآن نے ہزاروں سال پہلے کردی تھی کہ علم مومن کی میراث ہےجہاں پائے اسے حاصل کرلے۔ انسان نےمتقی ہونے کا لیبل حاصل کیا تو ولائیت کی منزل کا بھی حقدار ٹھہرا کبھی خدا کے منتخب بندے کے اعزاز سے سرفراز ہوا تو نبوت کے گوہرنایاب کاحقدار قرار پایا ۔جیسے جیسے زمانے اور ادوار انگڑائی لیکر بدلے تو ملکوں ملکوں آسمان سے زمین کےمناظر بدلتے گئے۔اس طرح دنیا میں فانی زندگی بسر کرنے والے انسان کی سوچ ،رویےاوراعتقاد بھی بدلتے چلے گئے ۔بشریت کے بنیادی تقاضوں میں شر کی شرارت لاز م و ملزوم ہے۔ نام نہاد قابلیت اور سرابی علم پا کرتکبر کی عمارت کی نمو کا آغازجب جسد خاکی میں ہوجائے تو اس کے حروف کی تپش اورچبھن ماحول میں موجود افرادپر واضح طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ دن ہو یا رات ٹی وی کھولیں تو اکثرٹی وی چینل پر براجمان اینکرز ناصحین کے روپ میںسنسنی پھیلانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔وہ تیز ترین لہجے،درشت رویے اور خاص ایجنڈے کے تحت ریاست کو ناکام قرار دینے کی راہ پر یوں گامزن ہیں کہ اس ملک کی ناکامی اور شکست انکے من کی مراد ہے۔ایسا محض معلوم نہیں ہوتا بلکہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ کسی خاص ایجنڈے کے تحت ڈس انفارمیشن کا بھنور چلائے ہوئے ہیں۔ان نام نہاد سورمائوں کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ وہ بیک وقت طبیب کی طرح جڑی بوٹیوں پر مبنی نسخہ جات بھی تجویز کرتے ہیں اور جب چاہے ڈاکٹر کی مانند انجکشن لگانا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ تو بجٹ کے قریب معیشت دان کے کردار میں ڈھل کر یوں ہوجاتے ہیں کہ گویا بجٹ بنانا ان کیلئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔جب جج بنتے ہیں تو قانون کے ساتھ ساتھ قانون دانوں کے بھی پر خچے اڑا دیتے ہیں۔ایسے ہی ایک خود ساختہ ماہر ایک صاحب فرماتے ہیں کہ ملک خداد ادایک بار پھر مشکلات مدو جذر میں پھنسا ہوادکھائی دیتا ہے۔ تمام رپورٹرز کو تقریباً اپنےہر محکمہ اور ادارے کی اندرون خانہ کی خوب خبر ہوتی ہے لیکن سب ایڈیٹنگ سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے ان صاحب کو نہ جانے کب کہاں سے اور کیونکر ولائیت حاصل ہوئی کہ وہ عین وقت پر ہر اس اہم ترین مقام پر موجود پائے جاتے ہیں جہاں کسی اور کورسائی تک نہیں ہوپاتی ہے۔ کتنی حیران کن بات ہے کہ عین اس واقعہ کے بعد نہ صرف وہ سلیمانی ٹوپی پہن کر تخت سلیمانی پر بیٹھ کر جانب جی ایچ کیو پرواز ہوجاتے ہیں بلکہ ایک بار پھرانکی آنکھوں کے سامنے راحیل شریف اپنے ساتھیوں اورکور کمانڈروں کے فیصلوں پر سر تسلیم خم کررہے ہوتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صرف وہی ایک صاحب ہیں جو سلیمانی ٹوپی کی بدولت ہر اس اہم مقام پرپہنچ جاتے ہیںجہاں تک کسی اور صحافی کی رسائی تو دوروہاں سے اس کا گزر بھی ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔موجودہ سال کو موجودہ حکومت کا آخری سال قرار دیا جارہا ہے ۔اسی وجہ سے موصوف نے موجودہ حکومت کو تواتر سےآڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا ہے۔سابق چیف آف آرمی اسٹاف راحیل شریف کی سعودی عرب میں تعیناتی اور این او سی کے اجرا پر بھی ان موصوف سمیت ہر چھوٹے چینل پر خوب بیانیہ دھینگا مشتی ہوئی تھی اس کا تدارک ہونا چاہئے۔ وقت کی ضرورت تو یہ بھی ہےکہ یہ طے کیا جائے قومی معاملات چاہے ان کا تعلق وزارت داخلہ سے ہو یا وزارت خارجہ سے ہواس پرسیاست نہ کی جائے اور نہ ہی اس پر ایجنڈے کے تحت مخصوص بیانیہ کو تجزیوں کی شکل میں پیش کرکے گمراہی پھیلائی جائے اس ضمن میں پیمرا، اے پی این ایس اور پی بی اےسمیت تمام متعلقہ اداروں کو قومی ابلاغی پالیسی وضع کرنی چاہئے ورنہ اس بے روک ٹوک جاری رہنے والی افواہ سازی کے نتیجہ میں ہونے والی جگ ہنسائی کا سلسلہ ہرگز بند نہیں ہوگا۔
خود ساختہ جج کا روپ دھارتے ہوئے اپنی کج فہمی کا ثبوت د یتے ہوئے ان موصوف نےتحریر کیا کہ ہمیں ماننا پڑے گا کہ کلبھوشن کیس میں ہماراوکیل ناتجربہ کار تھا۔حقیقت تو یہ ہے کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ یہ وہی ناتجربہ کار پاکستانی وکیل ہے جنھیں انرجی کیس میں بھارتی حکومت نے عالمی عدالت میںاپنی لیگل ٹیم کا سربراہ مقرر کیا تھا جس کے بعداس کیس کا فیصلہ ثالثی پر ہوا تھا۔وزرات عظمیٰ کی ذمہ داریوں اور کار سرکار کی مصروفیات سےنابلد وہ صاحب انتہائی بچگانہ انداز میں دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وزیر اعظم بڑے بڑے مسئلے چلتے چلتے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو مہنگا پڑ جاتا ہے۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ کسی بھی دور کو اٹھا کر دیکھ لیںکہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نےتمام تر مخدوش ترین حالات کے باوجود ملک کو وہ سب کچھ دینے کی کامیاب کوشش کی ہےجو ایک سربراہ مملکت دے سکتا ہے۔میاں نواز شریف کی سادگی کو ہدف تنقید بنانے والے موصوف کی یادداشت کیلئے عرض ہے کہ یہ وہی وزیراعظم ہیں جنہوں نے امریکہ کے الٹی میٹم کے باوجود ملکی تاریخ کا سب سے بڑا کام یعنی ایٹمی دھماکے کر ڈالے تھے۔وزیر اعظم نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے کریڈٹ میں اتنے ترقیاتی منصوبے ہیں جنھیںمورخ ہمیشہ سنہرے الفاظ میں تحریر کرے گا اور آج بھی وہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے پر جتے ہوئے ہیں۔ایک بار پھر ملک میں روشنیاں کرنے کی خاطر نواز شریف کی سوچ اور شہباز شریف کی زبردست کوششوں سے محض 22ماہ میںساہیوال کول پاور پلانٹ کا آغاز ہوگیا ہے جو بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہے۔خدا میرے وطن کو روشنیوں اور امن و ترقی کا گہوارا بنائے۔آمین
.