’’یہ پی آئی اے کِتّے کی لو گے؟‘‘
میں نے دریافت کیا۔
’’بارہ آنے سے زیادہ نہیں دوں گا۔‘‘
ڈوڈو کباڑی نے فیصلہ سنایا۔
’’نہ بھائی، یہ تو کم ہے۔‘‘ میں بلبلایا۔
’’نہ بھائی، اس سے زیادہ کی نہ ہے۔‘‘
ڈوڈو کباڑی نے صاف صاف کہا۔
’’اور یہ اسٹیل مل؟‘‘
’’اس کے فقط چار آنے دوں گا۔‘‘
’’نہ بھائی، یہ تو کم ہے۔‘‘
’’نہ بھائی، اس سے زیادہ کی نہ ہے۔‘‘
میں مایوس ہو کر بیٹھ گیا۔
کچھ دیر بعد پوچھا،
’’اور یہ بجلی کمپنیاں؟‘‘
ڈوڈو کباڑی نے ہنس کر کہا،
’’بھیا جان، میں کباڑ خریدتا ہوں۔
کوڑا کرکٹ نہیں۔‘‘