رحمتہ للعالمینﷺ سے تعلق کا انہیں دعویٰ ہے مگر ایسے خوں ریز؟ اس قدر سفّاک ، اس قدر سفّاک؟
بو علی سینا کو دانش و منطق اور مولانا روم کو اقبال نے عشق و مستی کا استعارہ کیا۔
بو علی اندر غبارِ ناقہ گم۔دستِ رومی پردہء محمل گرفت
( بو علی گرد میں گم ہوگئے اور راہِ سلوک کے مسافر مولانا روم نے اپنے مقصود کو پا لیا)۔ طلوعِ سحر کی دل آویزی میں طالبِ علم سوچ رہا ہے کیا پھر بہ اندازِ دگر وہی داستان؟کیا اقتدار کے جوش و جنوں میں بے گناہ مسلمانوں کے لہو سے تلواریں تر کرنے والوں کا انجام قریب آپہنچا ۔بیسویں صدی میں کارِ تجدید اگر کسی نے کیا تو اقبال نے ۔ درد کی ایسی شدّت ، ادراک کی ایسی وسعت۔ نصف شب کو ختم ہونے والی ایک ملاقات میں نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم نے طالبِ علم سے اچانک پوچھا: اقبال کے ہاں" گل ِ لالہ" کا استعارہ کہاں سے آیا؟ کہا: مراکش اور تیونس کے مسلمانوں کی سرخ ٹوپی ، جسے ہند میں ترکی کہا جاتا۔ پہلی عالمگیر جنگ میں ان کا لہو بے دردی سے بہایا گیا۔
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے ، اس کو خونِ عرب سے
یہ بات اس روز سمجھ میں آئی کہ متروک سرخ ٹوپی اس آد می کو اتنی عزیز کیوں ہے۔ پھر خواجہ مہر علی شاہ کی یاد۔ اہلِ علم میں ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اس عہد میں اقبال# کے سوا کوئی چراغ تھا تو خواجہ۔ سبھی جانتے ہیں کہ آکسفورڑ یونیورسٹی میں فلسفہء زمان و مکاں پر لیکچر کی دعوت ملی تو جناب مہر علی شاہ کو لکھا: ہندوستان میں آپ کے سوا کوئی شخص نظر نہیں آتاجو میری رہنمائی کر سکے۔ رسول اللہﷺ کی امت کے لیے اقبال کا دل کس طرح تڑپتا تھا۔ چکوال کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے نعیم صدیقی اکیس برس کے تھے، جب ان کی زیارت کرنے گئے ۔ خاموش اور مئودب۔ شاعر بھی خاموش اور خیالات میں گم۔ سر اٹھایا تو یہ کہا"افسوس کوئی مخلص مسلمان نہیں ملتا"پھر تہبند کے پلّو سے آنکھیں پونچھ لیں۔ اسی اقبال# نے محمد علی جناح کو اپنا لیڈر مانا۔ 1937ء سے ٹی بی میں مبتلا تھے۔ تیرہ برس کس طرح مر مر کے جیے مگر مسلمانوں کے لیے کیسی پناہ گاہ بنا دی۔ جنہیں جناح سے عناد ہے، انہیں پاکستان سے عناد ہے مگر اہلِ تصوف سے اقبال# کی شدید وارفتگی؟ جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر صاحب نے اخبار نویس کولکھا ہے: نظامِ خانقاہی کے ذکر سے بھنگ اور چرس کا خیال آتا ہے مگراقبال# نے داتا گنج بخش سیّدنا علی بن عثمان ہجویری کو یاد کیا تو یہ کہا تھا
صبح ما از مہر او تا بندہ گشت
خواجہ مودود چشت کے فرزند سیّد ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنے چہیتے شاگرد میاں طفیل محمد کو شیخ ہجویر کی نادرِ روزگار تصنیف "کشف المحجوب“ کے ترجمے پر مامور کیا تھا۔ بھنگ اور چرس؟ تعلیم کے لیے لندن روانہ ہونے سے پہلے ، تاریخِ انسانی کا عظیم شاعر، خواجہ نظام الدین اولیاکے مزار پر گیا اور اللہ سے دعا کی: میرا قدم ہم سفروں سے اس قدر آگے ہو کہ میری گردِ راہ مسافروں کی منزل ہو جائے۔مجدّد الف ثانی کو" زیرِ فلک مطلع انوار"کہا۔ "ہندمیں سرمایہء ملت کا نگہبان"لکھا۔ مثنوی مولانا روم کولاکھوں نہیں، کروڑوں نے پڑھا ہوگا۔ مغرب سمیت، دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب، مگر اقبال# کے وہ دل و جاں پر بیت گئی۔ انہیں پیررومی کہا، خود کو مرید ہندی۔ آدمی نظر اٹھا کر دیکھتا ہے تو ششدر رہ جاتا ہے۔ کتنے زمانوں پر پھیلا ہوا نور کا سلسلہ ۔ علم کے ثمر سے لدے شجر اور شاخیں جھکی ہوئی۔ اقبال# رومی کو دیکھتے تھے، رومی عطار کو۔
ہفت شہرِ عشق در عطار گشت
ما ہنوز اندر خم یک کوچہ ایم
( عطار نے عشق کے سات شہر کھنگھال دیئے اور ہم ابھی ایک کوچے کے خم میں ہیں) ۔ کیسے لوگ، تب زندہ، اب بھی زندہ۔ اور مولوی؟
قوم کیا چیز ہے، قو موں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
صوفی ویرانوں میں اترے تو چراغ جلا دیئے اور ان کے گرد شہر بسا دیے ۔ شیخ ہجویر نہ ہوتے تو لاہور کا کیا ہوتا۔ تنہا خواجہ فرید الدین شکر گنج نے ہزاروں کو مسلمان کر دیااور یہ "علمائے کرام"؟ شمشیر ِ برہنہ۔ زندہ انسانوں کو ذبح کیا۔ مزاروں پر بارود برسایا۔ اس قابلِ رشک استاد ، ڈاکٹر محمود غازی سے سوال کیا کہ جدّتِ طراز سکالر ہیں جو تصوف کو جہالت کہتے ہیں۔ کہا: ان کی مانیں تو کتنی عظیم ہستیوں اور علوم کے کتنے ذخیروں کو دریا برد کرنا ہوگا۔ خیال آج دوسرا تھا۔ اقبال# کا تصوّرِ قومیت اور ہندی مسلمانوں کے لیے آزاد وطن کی آرزو لیکن عجیب دن چڑھا ہے کہ دل، دماغ کی سنتا ہی نہیں ۔ چاندنی رات جاگ کر بتا دی اور قلب کی کشتی بے پتوار ہے ۔ اقبال# اور اس کا عہد ۔ اوّل اس نے وطن سے محبت کا درس دیا۔ "یہ ہمالہ یہ فصیل کشور ہندوستاں"پھر وطن کو بت کہا"ان تازہ خداؤں میں بڑاسب سے وطن ہے "۔ عجیب زمانہ تھا، ایک سے بڑا ایک عالمِ دین اور حریت کیش گاندھی جی کے دربار میں مئودب ۔ سارے مفکر اس پہ نثار مگر اقبال# نے سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ علماء اس سے مرعوب کیوں تھے؟ مقبولیت اور طاقت؟ مگر وہ تو محض اپنی قوم کا خیر خواہ تھا اور مسلم دوستی میں فقط ریا کار۔ اقبال اور محمد علی جناح کیوں بے نیازرہے؟ ہندوؤں کے رشی نے کہا : میں فرشِ خاک پہ بیٹھوں گا۔ محمد علی جناح نے کہا : ضرور لیکن مجھے کرسی کی نشست پسند ہے۔ کہا: آپ کی قوم ، آپ کو قائدِ اعظم کہتی ہے، میں بھی۔ جواب ملا: پھول کو کچھ بھی کہیے، وہ پھول ہی رہے گا۔ "اگر ہندوستان تقسیم ہوا تو اندیشہ ہے کہ خانہ جنگی ہوگی"۔ اسی وقار ، متانت اور یقین سے انتباہ۔ "لیکن اگر پاکستان نہ بنا تو مجھے یقین ہے کہ اس سے بھی زیادہ"۔اقبال# کبھی وطن پرست تھے اور جناح کبھی ہندو مسلم اتحاد کے سفیر ۔ پھر انہیں الگ وطن کی بے تابی کیوں ہوئی۔ تیرہ برس محمد علی کے پھیپھڑوں کو ٹی بی چاٹتی رہی اور وہ رزم گاہ میں کھڑا رہا۔ اس لیے کہ کسی قوم کو اس کی اپنی ریاست ہی امن کی ضمانت دے سکتی ہے۔ سپین کے مسلمان ، امریکہ کے ریڈ انڈین اور آسٹریلیا کے ابر جین کچلے گئے، برباد ہوئے ۔ مرہٹوں اور سکھوں نے ہندی مسلمانوں کا قتلِ عام کیا، عساکر کا نہیں ، عوام کا۔ کل بوسنیااور چیچنیا ، آج عراق اور افغانستان ۔ سوات اور قبائل میں کیا محض انارکی ہے یا اسی گاندھی کے مسلم اور غیر مسلم چیلے بھی؟ مکمل امن تو تب آئے گا جب مغرب کے وحشی کابل سے چلے جائیں گے۔ وادیوں میں فاختائیں گیت گانے لگیں گی اور چرواہے بنسریاں تو وقائع نگار درندگی کی کہانیاں لکھیں گے۔ سب داستانوں کے پسِ منظر میں ایک داستان کہ ریاست کمزوریابے حس ہوجائے تو اس کے بچوں پر کیا بیتا کرتی ہے۔مگر کیا ریاست تحلیل کر دی جائے؟ ایک اور سپین؟ ماں باپ لاپرواہ بھی ہوتے ہیں۔کبھی مجرمانہ غفلت بھی مگر کلیہ یہی ہے کہ ممتا تمام محبت اور باپ سراسر سائبان۔ والدین کے بغیر بچے اور ریاست کے بغیر اقوام نہیں جی سکتیں۔ حکمرانوں کی سنگ دلی کے خلاف احتجاج افضل جہاد ہے کہ آزادی عظیم ترین نعمت ہے مگر جدوجہد میں سلیقہ ہوتا ہے۔ علم ، حکمت، حسنِ کلام، ایثار اور صبر"وتوا صو بالحقّ وتواصو با الصبر"۔ صداقت سے پیمان ، صبر سے پیمان۔ایک عجیب چیز مگر پچھلی صدیوں میں ایجاد ہوئی ہے۔انقلابی! معافی کی مئودبانہ درخواست کے ساتھ عرض ہے کہ اکثر محض ردّ عمل ۔ نرا جنون، نرا انتقام۔ یہ لوگ کبھی کچھ تعمیر نہیں کر سکتے۔ محض تخریب۔ محض بغض و عناد۔ قائدِ اعظم کے پاکستان سے بغض و عناد۔ رحمت للعالمین ﷺ سے تعلق کا انہیں دعویٰ ہے مگر ایسے خوں ریز، اس قدر سفاک ؟ اس قدر سفاک؟ ایمان نہیں ، ایثار نہیں ، نفی ذات نہیں ۔ اخوّت نہیں ، محبت نہیں ، محض طاقت کی تمنا۔ قوم کے باپ قائدِ اعظم سے زیادہ گاندھی انہیں محبوب ۔ نہیں وہ منزل کو نہیں پہنچیں گے ۔خلقِ خدا کی بددعاؤں سے راہ میں برباد ہوں گے۔
ع بو علی اندر غبارِ ناقہ گم