• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپریشن راہ راست یا براہ راست؟,,,,ملک الطاف حسین

سوات اور اس کے اگر ملحقہ علاقوں میں کئے جانیوالے آپریشن کو ”آپریشن راہ راست“ کا نام دیا گیا ہے یوں تو یہ آپریشن تقریباً گزشتہ 2برس سے جاری تھا مگر اس سے پہلے اس آپریشن کی شدت اور حدت کافی کم تھی اور یہ بغیر نام کے بھی تھا مگر اب کی بار یہ آپریشن جو صدر زرداری کی وائٹ ہاؤس میں موجودگی کے دوران وزیر اعظم پاکستان جناب سید یوسف رضا گیلانی نے 7مئی کو قوم سے خطاب کے دوران ایک حکم کے ذریعے سختی کے ساتھ جاری کرنے کا فیصلہ سنایا اس کو ایک خوبصورت نام اور خوفناک جنگ میں تبدیل کردیا گیا۔
اس آپریشن کا مکمل تجزیہ کیا جائے تو ایسا ہرگز معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کوئی ”آپریشن راہ راست“ ہے بلکہ حالات اور واقعات کی تمام کڑیاں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ یہ آپریشن راہ راست نہیں بلکہ ”براہ راست“ ہے جو امریکہ کی زیر نگرانی کیا جارہا ہے گو کہ امریکہ اس کے اتحادیوں اور حکومت پاکستان کے یکطرفہ پروپیگنڈے نے بہت کچھ نظروں سے اوجھل کردیا ہے۔ اس کے باوجود یہ بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ افغانستان، فاٹا اور سوات میں لڑی جانیوالی جنگ قطعاً پاکستان کی جنگ نہیں اور نہ ہی یہ جنگ پاکستان نے شروع کی تھی بلکہ یہ جنگ امریکی جنگ ہے جس کیلئے پاکستان استعمال ہورہا ہے… طالبان افغانستان کے ہوں یا پاکستان کے، نفاذ شریعت محمدی کے رہنما ہوں یا کارکن ان میں سے کوئی بھی پاکستان کا دشمن نہیں تھا ۔ افغانستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات سمیت وزیرستان وغیرہ میں امریکی جارحیت اور مداخلت کے خلاف ردعمل تھا جو امریکی ظلم اور زیادتیوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مسلح مزاحمت اور جہاد میں تبدیل ہوگیا لہٰذا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکہ پر دباؤ ڈالا جاتا کہ وہ خطہ کے استحکام، سلامتی اور عالمی امن کیلئے اپنے اتحادیوں کے ساتھ انخلاء کرجائے کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو مزاحمت تیز ہوگی جس سے پاکستان بھی متاثر ہوگا مگر یہاں ایک بار پھر جنرل مشرف کی غلطی کو دہرایا گیا۔ امریکی وفاداری اور تابعداری میں مزید سخت اقدامات اٹھائے گئے اور آج ”آپریشن راہ راست“ کے ذریعے براہ راست اپنے شہریوں کا جو خون بہایا جارہا ہے اس کے بھیانک نتائج کب تک سامنے آتے رہیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم سردست جو صورتحال ہے وہ یہ کہ آپریشن راہ راست کی وجہ سے وہ لوگ بھی بھٹک گئے کہ جو اب تک راہ راست پر تھے۔ ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آتا جارہا ہے۔ کراچی سے لیکر پشاور تک ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کا سلسلہ جاری ہے حکومت کی رٹ پورے ملک میں تو کیا خود اسلام آباد میں بھی کمزور ہوتی جارہی ہے۔ قانون کی بالادستی کا تصور تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مجرموں کا تعاقب کرنے والے محافظ اپنے فرض کی ادائیگی میں مسلسل ناکام رہے ہیں۔ قوم کی تشویش اور مایوسی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ”نظام عدل معاہدہ“ جس سے امن قائم ہونے کی اسیر ہوچلی تھی اور جس سے امن قائم ہونے کی امید ہوچلی تھی ۔ اس معاہدے کو اچانک توڑ کر آپریشن راہ راست شروع کردیا گیا مگر معاہدہ توڑنے کی وجوہات اور تفصیلات سے اب تک عوام کی آگاہ نہیں کیا گیا۔ تمام الزامات اور بیانات یکطرفہ ہیں۔ یہ ویسی ہی تیکنیک معلوم ہوتی ہے کہ جیسی افغانستان اور عراق پر حملہ کرتے وقت امریکہ نے اختیار کی تھی۔ بے بنیاد الزامات اور گمراہ کن پروپیگنڈے کو ہی حملے کا جواز بنایا گیا۔ یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ کیا آپریشن راہ راست کیلئے سوات کے عوام نے کوئی مطالبہ کیا تھا۔ جو لوگ اس آپریشن سے متاثر ہوکر بے گھر ہوئے ہیں وہ کیا کہتے ہیں…؟؟ آپریشن راہ راست اس قدر شدت، بے رحمی اور عجلت کے ساتھ کیوں شروع کیا گیا کہ 25لاکھ سے زائد ہم وطن چند روز میں درختوں اور ٹینٹوں کے نیچے پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ ان متاثرین کی واپسی کب ہوگی۔ تباہ شدہ علاقے کی تعمیر نو کیسے ہوگی، اس کی کچھ خبر نہیں۔
عبدالرشید غازی، نیک محمد، محمد عالم، امیر عزت خان، نواب اکبر بگٹی، نوابزادہ بالاچ مری اور محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت پاکستان کی جن جن شخصیات کو قتل کیا جاچکا ہے اس سے پاکستان کے عوام کو کس قدر صدمہ اور امریکہ کو کتنی خوشی و اطمینان ہوا ہے اگر اس کا دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو تمام آپریشنز کے درپردہ مقاصد اور پس پردہ کردار سامنے آ جائیں گے… پاکستان کے مستقل مفادات کے خلاف جاری یہ آپریشن جن سے صوبہ سرحد اور بلوچستان سمیت پورے ملک کی صورتحال انتہائی تیزی سے بگڑتی چلی جارہی ہے اس کو قابو میں لانے کیلئے طاقت کا استعمال کوئی حل نہیں۔ آخر میں ہم یہ بات اپنے حکمرانوں پر پوری طرح واضح کردینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام اپنے ہم وطنوں کے خلاف ملٹری آپریشنز اور امریکی مداخلت کے خلاف ہیں۔ واشنگٹن اور اسلام آباد میں اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہے کہ اس طرح کے ظلم و تشدد سے پاکستان کے اندر اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے کو روک لیا جائے گا تو ایسا ہونا ممکن نہیں اس طرح نہ صرف قرآن و سنت کے قانون کے نفاذ کا مطالبہ مزید زور پکڑے گا بلکہ ریاستی تشدد اور امریکی مداخلت سے اسلامی جماعتوں اور جہادی تنظیموں کو مزید فروغ اور مقبولیت حاصل ہوگی۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ”راہ راست“ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
تازہ ترین