اسلام آباد (احمد نورانی) بیریسٹر اعتزاز احسن کی جانب سے خفیہ فون کالز کے ایشو پر فل کورٹ کی تشکیل کے مطالبے کو جمعرات کو تقویت ملنے لگی کیونکہ نہ صرف فیس ٹائم اور واٹس ایپ فون کالز کی تصدیق ہوگئی ہے بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ فون کالز پاناما کیس میں پانچ رکنی بینچ کے 20 اپریل کے فیصلے کی خلاف ورزی بھی ہیں۔ خفیہ فون کالز کے اعتراف کے بعد تفتیشی عمل اور جے آئی ٹی کے حوالے سے پانچ بنیادی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ملک کے سینئر ماہرینِ قانون نے کہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے من پسند افسران کو جے آئی ٹی میں شامل کرانے کیلئے اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی جیسے اداروں کے سربراہان سے انٹرنیٹ ایپلی کیشنز (خفیہ کالز) کے ذریعے رابطہ کیا ہے تو یہ پورا عمل بیکار کوشش ثابت ہوگا۔ 20؍ اپریل کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیرا نمبر تین میں لکھا ہے کہ جے آئی ٹی کیلئے اداروں کے سربراہان سات روز میں نام تجویز کریں جن کی حتمی منظوری عدالت دے گی۔ فیصلے میں واضح لکھا ہے کہ اداروں کے سربراہان کو تجاویز پیش کرنا ہیں جبکہ ججوں کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی تجویز کردہ نام کو منظور کریں یا اسے مسترد کریں۔ لیکن کیا سپریم کورٹ کا رجسٹرار براہِ راست یا خفیہ طور پر اداروں کے سربراہان سے رابطہ کرکے انہیں یہ کہہ سکتا ہے کہ کسی مخصوص افسر کو تجویز کیا جائے؟ کیا یہ عمل پاناما کیس کا فیصلہ سنانے والے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے عین مطابق ہے یا اس کیخلاف ورزی؟ پہلا بنیادی سوال یہ ہے کہ کسی کو سپریم کورٹ کے اس اختیار پر اعتراض نہیں کہ سپریم کورٹ اپنی پسند کے افسر کو تعینات کر سکتی ہے اور ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے۔ لیکن اس مقصد کیلئے تحریری احکامات کیوں جاری نہیں کیے گئے اور رجسٹرار نے اداروں کے سربراہان کو فون کیوں کیا اور تحریری احکامات جاری کرنے سے گریز کیوں کیا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ کے پاس واضح اور غیر متنازع اختیارات موجود ہیں تو رجسٹرار نے مخصوص افسران کو جے آئی ٹی میں شامل کرانے کیلئے خفیہ کالز کیوں کیں۔ واٹس ایپ اور فیس ٹائم کالز ہمیشہ سے ہی نجی یا خفیہ معاملات کیلئے کی جاتی ہیں اور سرکاری مقاصد کیلئے موزوں نہیں۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ اس معاملے کو خفیہ کیوں رکھ رہے تھے؟ ارباب محمد عارف نے پہلے چیئرمین ایس ای سی پی کو اپنے سرکاری لینڈ لائن نمبر سے فون کیا اور ان سے کہا کہ وہ اپنے ذاتی موبائل فون پر انٹرنیٹ سے فون کال کیلئے تیار رہیں۔ اس معاملے میں کس سے کیا چھپایا جا رہا تھا؟ جب رجسٹرار نے 27 اپریل کو اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر کو واٹس ایپ سے فون کال کی تو انہوں نے خصوصاً مسٹر عامر عزیز کا نام تجویز کرنے کو کہا اور کہا کہ جلد ہی ایک میمو اسٹیٹ بینک بھجوایا جائے گا۔ لیکن میمو میں کسی مخصوص نام کا ذکر نہیں تھا۔ چوتھا اہم سوال یہ ہے کہ جب اس طرح کی اطلاعات سامنے آئیں کہ ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک کے نامزد کردہ افسران کی رپورٹ منفی ہے تو سوال یہ ہے کہ تجویز کردہ افسران کے کردار کا سرٹیفکیٹ اور ان کی منفی رپورٹس کون دے رہا تھا؟ یہ معاملہ شفاف کیوں نہیں تھا؟ لوگوں کو ایسی رپورٹس کے ذرائع جاننے کا حق ہے۔ یہ رپورٹس ہمیشہ سے ہی مختلف ایجنسیوں سے لی جاتی ہیں تاکہ منطقی اور غیر جانبدارانہ فیصلہ کیا جا سکے۔ پانچواں سوال یہ ہے کہ ان افسران کی تجویز کون دے رہا تھا اور ان کی مثبت رپورٹس کس نے جاری کیں جن کی وجہ سے رجسٹرار کو خفیہ واٹس ایپ اور فیس ٹائم کالز کرنا پڑیں۔ حدیبیہ پیپر ملز کے نیب میں 2000 اور 2001 کے دوران جاری کیس پر کون کام کر رہا تھا اور ان کے تعلقات اور ان کی ایک دوسرے سے جڑے کیسز میں دلچسپی کے حوالے سے کئی دیگر سوالات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا کہ جب سپریم کورٹ تحریری حکم دے کر کسی بھی افسر کو جے آئی ٹی میں شامل کر سکتی ہے تو رجسٹرار نے اداروں کے سربراہان کو فون کرکے تجاویز پیش کرنے کو کیوں کہا۔ رجسٹرار کی جانب سے عام لینڈ لائن فون سے کال کرنا بھی غیر قانونی اور ناقابل قبول عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات ہونا چاہئیں کہ کس نے فون کال کرنے کی ہدایت دی۔ بیریسٹر اعتزاز نے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ رجسٹرار نے خود ہی فون کالز کی ہوں، ایسا ناممکن لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دی جائے تاکہ اس سنگین مسئلے کی تحقیقات ہوسکیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایس ای سی پی کے چیئرمین نے 27 اپریل کو فون کال کا معاملہ اٹھایا تھا جبکہ عملدرآمد بینچ 2 مئی کو قائم کیا گیا جبکہ جے آئی ٹی 6 مئی کو تشکیل دی گئی جس سے واضح ہے کہ چیئرمین ایس ای سی پی کے آگاہ کرنے کے باوجود معاملے کا نوٹس نہیں لیا گیا۔ صرف ایس ای سی پی ہی نہیں بلکہ اسٹیٹ بینک نے بھی خفیہ واٹس ایپ کالز کا معاملہ اٹھایا۔ اس ضمن میں اسٹیٹ بینک نے 28 اپریل کو ایک خط جاری کیا تھا جس کی نقل دی نیوز کے پاس دستیاب ہے۔ خط میں بتایا گیا ہے کہ ڈپٹی گورنر پالیسی / گورنر (اے) کو 27 اپریل کو 2 بجکر 40 منٹ پر واٹس ایپ کال موصول ہوئی، کالر نے اپنا تعارف رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب محمد عارف کے نام سے کرایا اور آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ ایک میمو جاری کر رہی ہے جس کے مطابق اسٹیٹ بینک کوجے آئی ٹی کیلئے مزید دو نام پیش کرنا ہیں جن میں لازماً مسٹر عامر عزیز، ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا نام شامل ہونا چاہئے۔ اس کے بعد گورنر آفس کے فیکس نمبر پر 2 بجکر 55 منٹ پر فیکس موصول ہوا اور کہا گیا کہ فہرست 28 اپریل تک لازماً بھیجی جائے، تاہم اس فیکس میں مخصوص نام شامل کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ بعد ازاں یہ معاملہ گورنر اسٹیٹ بینک کے روبرو پیش کیا گیا کیونکہ فون کال کرنے والی کی شناخت کی تصدیق نہیں ہو پائی تھی اور موصول ہونے والے میمو پر کوئی فیصلہ کرنا باقی تھا۔ گورنر کی منظوری کیلئے جن افسران کے نام تجویز کرنے پر اتفاق کیا گیا وہ یہ ہیں: مسٹر محمد جاوید اسماعیل، ڈائریکٹر فنانشل اسٹیبلٹی ڈپارٹمنٹ، مسٹر غلام محمد عباسی، ڈائریکٹر اسلامک بینکنگ ڈپارٹمنٹ، مسٹر سلیم اللہ ڈائریکٹر فنانس ڈپارٹمنٹ۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی جانب سے سپریم کورٹ کیلئے جو دو نام منظور کیے گئے وہ مسٹر محمد جاوید اسماعیل اور مسٹر سلیم اللہ تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا یہ سب ہی جانتے ہیں لیکن بالآخر سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نامزد کردہ افسران کو جے آئی ٹی میں شامل کر دیا گیا اور کچھ افسران کی منفی رپورٹس کا ذکر بھی سامنے آیا، سوال یہ ہے کہ یہ منفی رپورٹس کون جاری کر رہا تھا۔