پی پی پی کی حکومت کو ورثے میں ملنے والے مسائل ، چیلنجز اور جن سنگین بحرانوں کے پس منظر میں جب ہم وفاقی بجٹ کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حوصلہ افزاء پہلو سامنے آتا ہے کہ 29کھرب روپے کے مالیاتی بجٹ برائے 2009-10ء کا حقیقت پسندانہ تجز یہ کرنے سے اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت نے حقائق کو نظرانداز نہیں کیا عوام کی مشکلات ومسائل کو بھی پیش نظر رکھا اور اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل اور قومی سیاست اور سیاست دانوں پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کی بھرپور اور مخلصانہ جدوجہد کی ہے۔ اولین ترجیح سرکاری ملازمین کو دیتے ہوئے ان کی تنخواہوں اور پنشنوں میں 15 فیصد اضافہ کردیا گیا اور 7کھرب 22/ارب روپے کے خسارے کا بوجھ براہ راست عوام پر ڈالنے سے ہر ممکن اجتناب کیا گیا۔ پولٹری اور ڈیری پر ڈیوٹی کم جبکہ مقامی طور پر تیار ہونے والی کاروں پر ایکسائز ڈیوٹی میں 5فیصد کمی کردی گئی۔ دفاعی بجٹ میں 46/ارب روپے کا اضافہ ملکی دفاع کو مستحکم بنانے کی ایک حوصلہ افزاء کوشش ہے۔ مردوں کیلئے ٹیکس سے مستثنیٰ آمدن کی حدود لاکھ روپے جبکہ خواتین کیلئے 2لاکھ 40ہزار روپے کردی گئی ہے۔ نیشنل انٹرن شپ پروگرام کے تحت 30ہزار پوسٹ گریجویٹ نوجوانوں کو انٹرن شپ کی پیشکش کی جائے گی۔ ملک کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ ہے اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی خدمات اور قربانیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 70/ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس سے ملک کے 50لاکھ غریب خاندانوں کو ماہانہ بنیادوں پر ایک ہزار روپے ملیں گے اور غریب افراد کیلئے ہیلتھ انشورنس کا پروگرام بھی تیار کیا گیا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم 22/ارب روپے سے بڑھا کر 70/ارب روپے کی گئی ہے۔ یہ پروگرام مختصر سی مدت میں سماجی معاونت کے لازمی پروگراموں کیلئے ایک پلیٹ فارم کا کردار ادا کرے گا جن میں سب سے اہم غریب افراد کے لئے ہیلتھ انشورنس کا پروگرام ہے۔ یہ پروگرام اسپتال کے مکمل اخراجات ، زچگی ، علاج ، خصوصی ٹیسٹ اور خاندان کے کفیل افراد کو حادثے کی صورت میں معاوضہ کی ادائیگی پر مشتمل ہے۔ بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لئے 646/ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ صوبوں کو دوسو ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔ اسی طرح صنعتی کارکنوں کی بچیوں کے لئے شادی فنڈ بڑھا کر 70ہزار روپے کردیا گیا ہے۔ حکومت نے قومی معیشت کی بنیاد یعنی زراعت کے شعبے کو بھی نظر انداز نہیں کیا بلکہ زرعی ترقی کے لئے 15نئی اسکیمیں شروع کی جائیں گی۔ کاشتکاروں کو مشینی زراعت کو ترقی دینے کے لئے آسان اقساط پر ٹریکٹروں کی فراہمی ، زرعی قرضوں میں اضافہ اور ساڑھے 12 ایکڑ اراضی کے مالک کاشتکار کو ٹریکٹر اسکیم میں شامل کرنا سرفہرست ہے۔ نئے ڈیمز تعمیر کرنے پر 47/ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔ غرض اس بجٹ میں حکومت نے زندگی کے کسی بھی پہلو کو نظرانداز نہیں کیا۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت گزشتہ سال کی نسبت مختص رقم میں 200فیصد اضافہ ایک قابل قدر اقدام ہے اور حکومت اس پروگرام کی بدولت 50لاکھ خاندانوں کی غربت کے گراف میں بھی کمی آئے گی۔
حکومت نے سوات آپریشن کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والوں کو اس پروگرام کے تحت مالی امداد کی فراہمی کا فیصلہ کرکے نہایت مستحسن اقدام کیا ہے۔ غربت کے خاتمے کی حکمت عملی کے ذریعے غریب خاندانوں کو معاشی طور پر خود مختار بنانے کیلئے رقوم کی منتقلی کے پروگرام بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کاشتکاروں کو سرکاری اراضی کی فراہمی اور زرعی قرضوں کو مزید آسان بنانے کی طرف توجہ دیتے ہوئے ٹریکٹروں کی قیمتوں میں کمی، اقساط کی تعداد میں اضافہ اور مشینی زراعت کیلئے کاشتکاروں کی پیشہ ورانہ تربیت کا بھی اہتمام کرنا چاہئے تاکہ وہ جدید زرعی آلات کا استعمال پوری فنی مہارت سے کرسکیں۔ حکومت نے وفاقی بجٹ کے ذریعے عوام کو زیادہ سے زیادہ مراعات اور سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کا جو اہتمام کیا ہے اس کے پیش نظر یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ حکومت ان مراعات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی طرف بھی پوری توجہ دے گی اور خاص طور پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مانیٹرنگ کا بھی اہتمام کرے گی تاکہ غریب خاندانوں کو ان کا حق مل سکے اور وہ حکومت کے ان فلاحی اقدامات سے بھی آگاہ ہوسکیں۔