• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے محمد نواز شریف کو بطور وزیر اعظم بھی دیکھا ہے اور اس حالت میں بھی جب جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا اور پورے خاندان کو پابند سلاسل کر دیا۔ میں نے انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں بھی دیکھا جب رحمان ملک نے احتساب کے نام پر ان کے والد محترم میاں محمد شریف کے ساتھ انتہائی توہین آمیز سلوک روا رکھا اور انہیں ’’سیف ہائوس‘‘ میں قید رکھا اور سمجھ نہیں آتی، وہ کون سا دور ہے جس میں اس خاندان کو سخت اذیتیں دے کر ان سے ایک ایک پائی کے بارے میں نہیں پوچھا گیا۔ ان دنوں ایک بار پھر ان کے پورے خاندان کا احتساب ہو رہا ہے۔ اور یہ وہ خاندان ہے جس نے قرآن کے نام پر قومی خزانے کے اربوں کھربوں تو کیا، ایک پیسہ بھی اپنے اوپر حرام سمجھا۔ اس بار سپریم کورٹ آف پاکستان کی نگرانی میں جے آئی ٹی نے انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا ہوا ہے، اس حوالے سے افسوسناک امر یہ ہے کہ اس جے آئی ٹی کے حوالے سے بہت سے سوالات جنم لے چکے ہیں، جن کا جواب یا جواز ابھی تلاش کیا جانا ہے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے دو فاضل جج صاحبان نے وزیراعظم کے بارے میں کچھ ایسے ریمارکس بھی دیئے جن پر میں کچھ نہیں کہنا چاہتا کہ اس پر بہت سے حلقے پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
جس نواز شریف کو میں جانتا ہوں یہ وہ نواز شریف نہیں ہے جو گزشتہ ادوار میں مجھے نظر آتا تھا۔ یہ نواز شریف بہت کچھ برداشت کر رہا ہے مگر جمہوریت کی بقا اور استحکام کے لئے کچھ ایسے کڑوے گھونٹ بھی پی رہا ہے جو اس نے اس سے پہلے کبھی حلق سے نہیں اترنے دیئے تھے۔ میری خواہش اور دعا ہے کہ اسے دیوار کے ساتھ نہ لگایا جائے کہ جمہوریت، ملک اور قوم کا مفاد اسی میں ہے۔ پہلے پاناما لیکس آئیں، پھر ڈان لیکس آئیں، پاناما لیکس کے حوالے سے پورے خاندان سے ان کے آبائو اجداد کا حساب بھی مانگا جا رہا ہے اور نواز شریف بلا چون و چرا سارے کھاتے کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کا بیٹا حسین نواز کئی دنوں سے جے آئی ٹی کے سامنے پیشیاں بھگت رہا ہے۔ اسی طرح ڈان لیکس کے نتیجے میں نواز شریف کو پرویز رشید ایسے جینٹلمین اور جمہوریت کے لئے بے پناہ قربانیاں دینے والے صاحب کردار شخص کی رفاقت سے محروم ہونا پڑا۔ طارق فاطمی ایسے صف اول کے سفارت کار کی خدمات سے بھی محروم ہوئے، اس سے پہلے مشاہد اللہ خاں جو پرویز رشید ہی کی طرح آمر کے سامنے ڈٹے رہے ہیں وہ بھی نشانے پر آئے، اب نہال ہاشمی نے اپنے ہی نہیں اپنی جماعت کے پائوں پر کلہاڑا مارا اور نواز شریف نے ان کی وضاحت سنے بغیر انہیں جماعت سے نکال دیا بلکہ ان کے خلاف فوجداری مقدمہ بھی درج کرنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں انہیں سات سال قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ مگر اس تمام تر تعاون کے باوجود اپوزیشن کے الزامات اور بہتانوں کا سلسلہ پہلے ہی کی طرح جاری و ساری ہے اور یہ ’’کمال بے نوازی‘‘ نواز شریف کے کسی کام نہیں آ رہا، سب وشتم کا سلسلہ رکنے ہی میں نہیں آ رہا اور قومی حلقوں کی طرف سے ان تمام معاملات کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے ان کا تسلی بخش جواب بھی تاحال سامنے نہیں آ سکا۔
میں نے کبھی کوئی سیاسی کالم خوشی سے نہیں لکھا کیونکہ سیاست میرا پسندیدہ موضوع نہیں ہے، میں طنز و مزاح، ڈرامہ اور شعر و ادب کا شیدائی ہوں لیکن ایک پاکستانی کے طور پر جب مجھے کچھ ایسے مناظر دیکھنا پڑتے ہیں جو پاکستان کے حوالے سے دیکھے گئے میرے خوبصورت خوابوں سے مطابقت نہیں رکھتے تو مجھے تکلیف ہوتی ہے اور میں مجبوراً ایسے کالم لکھتا ہوں جن کے نتیجے میں میری ایک یا نصف فیصد بہتری کی خواہش بھی پوری ہو سکتی ہو۔ میں نے طنز و مزاح پر مشتمل ہزاروں صفحات لکھے ہیں جو کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں اور جن کا مختلف غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے مگر خالص سیاسی موضوع پر میرے کالموں کی کوئی ایک کتاب بھی نہیں ہے۔ آج کا کالم بھی میرے دکھی دل کی آواز ہے۔ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ لولی لنگڑی جمہوریت بھی چل رہی ہے، آگے جا کر اس میں مزید بہتری آئے گی۔ اس جمہوریت کو لنگڑا بھی طالع آزمائوں نے کیا ہے، جنہوں نے جمہوریت کے پودے کی نشو و نما ہی نہیں ہونے دی، کبھی براہ راست مداخلت کی اور کبھی بالواسطہ جمہوری حکمرانوں کے راستے میں کانٹے بوئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نواز شریف آسمان سے اترے ہوئے ہیں۔ ان کا تعلق بھی اسی زمین سے ہے، جس میں میرے جیسے لوگ بھی آباد ہیں لیکن ان سے بہتر قیادت کی اہلیت کسی اور کے پاس نہیں۔ انہوں نے سرد و گرم زمانہ چکھا ہے اور اب وہ سیاست دان نہیں ایک مدبر ہیں جن کی صلاحیتوں سے ملک میں معاشی ترقی کی رفتار تیز ہوئی ہے۔ دہشت گردی کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ سی پیک تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔ توانائی کے زبردست منصوبے تکمیل کے قریب ہیں جن کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ کی کمر بھی ٹوٹ جائے گی۔ خدا کے لئے ترقی کے اس سفر کو نہ روکیں اور بیس کروڑ عوام کے منتخب وزیراعظم کو مختلف ہتھکنڈوں سے اسی زگ زیگ میں نہ الجھائیں کہ ان کی توجہ تقسیم ہو کر رہ جائے۔ اور آخر میں یہ درخواست کہ برائے کرم میرے اس کالم کو سیاست کی عینک سے نہ دیکھیں، یہ میرے ضمیر کی آواز ہے جس پر میں اگر کان نہ دھرتا اوور اظہار نہ کرتا تو گھٹن کا شکار ہو کر رہ جاتا!

تازہ ترین