• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کھیل کا جذبہ سانس کی طرح زندگی سے مشروط ہے۔ کھیل صرف ایک سرگرمی تک محدود نہیں بلکہ ایک فکر، ایک نقطۂ نظر اور مخصوص رویے کی عکاسی کرنے والا مثبت طرزِ عمل ہے۔ کھیل سے مراد وہ پختہ ارادہ ہے جو عمل کے میدان میں نتائج کی پروا کئے بغیر کودنے پر مائل کرتا ہے۔ کھیل ایسی حرکت کی علامت ہے جو جمہور کو شکست سے دوچار کرتی ہے۔ کھیل فطرت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھنے کا فن ہے۔ اس طرح کھیل چیلنج قبول کرنے کی صلاحیت کا نام ہے جو انسان کو لامحدود کی طرف بڑھنے اور ناممکنات کو سر کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ کھیل انسان کی تربیت کرتا ہے۔ وجود کے انگ انگ میں موجود توانائی کو ایک مرکز پر متحد کر کے خاکی بدن کو فولادی قوت عطا کر دیتا ہے۔ اس طرح کھیل ایک ریاضت ہے جس میں تن میں ایک نقطے پر مرکوز ہو کر مقصد کو حاصل کرنے کا جتن کیا جاتا ہے۔ کھیل کے کئی مرحلے ہوتے ہیں۔ جو انسان کھیلنا نہیں جانتا یا کھیلنے کی جرأت نہیں رکھتا وہ کبھی کسی بڑے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا کیوں کہ وہ ہارنے سے خوفزدہ رہتا ہے۔ مسلسل مایوسی کی کیفیت بھی انسان میں مقابلے کے جذبے کو کم کر دیتی ہے۔ جب مقابلے کا جذبہ باقی نہ رہے تو سرنڈر کی پوزیشن طاری ہو جاتی ہے جسے ایک طرح کی غلامی کہا جاتا ہے کیوں کہ فرد کے پاس طاقت ور فریق کا حکم ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اس طرح کے حالات میں آقا اور غلام کے درمیان ایک خاموش معاہدہ ہوتا ہے جو کہیں تحریر نہیں ہوتا صرف محسوس کیا جاتا ہے جس کے مطابق فرد اپنی ذاتی رائے، خواہش اور آزادی کو آقا کے قدموں تلے گروی رکھ دیتا ہے اور غلامی کے طوق میں نجات ڈھونڈنے لگتا ہے۔ ہمارے ہاں برسوں سے ایسی کیفیت رہی ہے جس نے اس دھرتی کے لوگوں کی سوچ میں بے یقینی بھر کے پورے منظر نامے میں خاموشی کو حکمراں بنا دیا کہ وہ کھیلنے سے کترانے لگے۔ صرف کھیلوں کے میدان کی بات نہیں زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی کھیل کا جذبہ مفقود کئے جانے کا رواج زور پکڑتا رہا مگر جبلتاً اس ملک کے لوگ اتنے طاقتور تھے کہ ان کی سرشت میں لڑنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم اتنا پختہ تھا کہ صرف وقتی طور پر ان پر مایوسیاں طاری کر کے انہیں بے حس کر دیا گیا۔ لڑنے، زندہ رہنے اور خوش رہنے کا جذبہ سلا دیا گیا مگر دبایا نہ جا سکا۔
قدرت کی طرف سے ہر دور میں معاشرے کی ترقی و تعمیر کے نئے رجحانات اور امکانات تلاش کرنے والی شخصیات کو منفرد وژن دے کر بھیجا جاتا رہا ہے۔ یہ لوگ ذہانت اور قابلیت کے اس درجے پر فائز ہوتے ہیں جو نئی تخلیقات کے بارے میں سوچتے اور منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا یکسانیت کا شکار ہو کر رہ جائے۔ بعض اداروںمیں وژنری اور کمٹڈ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے شعبے کے حوالے سے معلومات کو اپنے وژنری دماغ سے نئے رنگ میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنی کاوشوں سے عالمی امن اور خیر کے حصول کے لئے برسر پیکار رہتے ہیں۔ ان کی جنگ کسی فرد سے نہیں بلکہ افراد کی توقیر کم کرنے والی قوتوں سے ہوتی ہے۔ کڑی آزمائشیں انہیں مؤقف سے دستبردار ہونے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ انکی شخصیت کا یہی جذبہ ان کے کام میں نظر آتا ہے۔ پاکستان میں پرائیویٹ چینلز کی باقاعدہ شروعات کا سہرا ’’جیو‘‘ ٹی وی کو جاتا ہے۔ ہر شعبے میں معیاری پروگراموں کا کریڈٹ بھی ’’جیو‘‘ کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف ادوار میں شدید مشکلات سے گزرنے کے باوجود نمبر ون کی پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔
آج کل ماہِ رمضان کے دوران ’’جیو‘‘ ٹی وی پر ’’جیو کھیلو پاکستان‘‘ کے نام سے ایک شو پیش کیا جا رہا ہے جس میں کرکٹ کے معروف اور ہر دلعزیز کھلاڑی وسیم اکرم اور شعیب اختر میزبانی کر رہے ہیں۔ یہ کریڈٹ بھی ’’جیو‘‘ کو جاتا ہے کہ اس نے کرکٹ کے سپر اسٹارز کو روایتی میزبانی کی بجائے ایک منفرد گیٹ اپ میں متعارف کروا کر یکسانیت کے ماحول میں لوگوں کو کھلکھلانے کا موقع دیا ہے۔ فنونِ لطیفہ سے جڑا ہر وہ ایکٹ جس کی ہم کم کم اُمید رکھتے ہیں ہمیں حیرانی اور شادمانی عطا کرتا ہے۔
میں ذاتی طور پر جب یہ شو دیکھتی ہوں تو خود کو اس کی تمام ایکٹیویٹی میں شریک پاتی ہوں۔ پالیسی سازوں نے اس شو کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ لوگ صرف جیتنے کے لئے آئیں۔ ان کے من میں براجمان خوف کے قلعے مسمار کرنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے مختلف رنگا رنگ سیگمنٹ شامل ہیں۔ ڈبوں میں انعامات نہیں خوشیاں بند ہوتی ہیں۔ پھر یہ ایسی تفریح ہے جس میں لوگ اپنے پورے خاندان کے ساتھ شرکت کر کے زندگی کے مثبت پہلو سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ وہ چند گھنٹوں کے لئے اضطراب، مایوسی اور دیگر مسائل سے بے بہرہ ہو کر صرف ہنستے کھیلتے اور تفریح کرتے ہیں۔ ان کی معصومانہ حرکتوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان کے من میں سویا ہوا بچہ بیدار ہو کے دوستی اور محبت کے صحن میں اپنے دوستوں سے کھیل میں مصروف ہے۔ انسان اگر من کے اندر جمع آہ و بکا اور سوالات کا اظہار نہ کرے تو وہ تند و تیز آندھی کا روپ دھار کر اس کی شخصیت کا حسن گہنا دیتے ہیں۔ ’’جیو کھیلو پاکستان‘‘ ایک تحریک ہے آگے بڑھنے کی، اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کی، ہچکچاہٹ اور بوکھلاہٹ کی دیواروں کو مسمار کر کے اپنا اظہار کرنے کی اور زندگی سے جڑے رنگوں کی بہار محسوس کرنے کی۔ رمضان کا مطلب دوسروں کے دُکھ کا احساس کرنا اور اپنی ذات کی تطہیر کرنا ہے۔ سو خیر بانٹنے اور خوشیاں سانجھی کرنے کے اس عمل میں جیو کھیلو پاکستان پوری طرح شریک ہے اور بڑی خوبصورتی سے اپنا کردار نبھا رہا ہے۔ گھروں میں بیٹھے ہوئے کروڑوں پاکستانیوں کی دھڑکنیں بھی اس شو کی لہروں کے ساتھ وجد میں رہتی ہیں۔ کھیلنے اور جیتنے کے درمیان تجسس کے وقفے میں ہر شخص سوچتا ہے، اندازہ لگاتا ہے اور نتیجے کا انتظار اس طرح کرتا ہے جیسے کھیلنے والا یا حصہ لینے والا فرد کر رہا ہو۔ اس سے آپ اندازہ لگائیے کہ جیو کھیلو پاکستان میں دراصل پورا پاکستان شامل ہے۔ ایسے عوامل معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں کیوں کہ یہ لاشعوری طور پر لوگوں کو عمل میں شریک کر کے ان کا مورال اپ کرتے ہیں، ان کی ہمت بندھاتے ہیں اور انہیں زندگی کو درپیش مسائل کا سامنا کرنے کی جرأت عطا کرتے ہیں۔ شہریوں کو اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے اپنی توانائیاں مجتمع کرنے اور پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔ یہ پروگرام اس حوالے سے بھی قابل تحسین ہے کہ اس میں صرف محبت کی بات کی جاتی ہے، انسان کی توقیر کا خیال رکھا جاتا ہے، اس کی خوشیوں کا سامان کیا جاتا ہے، کسی کو چھوٹا بڑا یا اچھا برا کے خطابات سے نہیں نوازا جاتا نہ ہی کوئی طبقاتی فرقہ بندی کی جاتی ہے بلکہ بڑے دھیمے انداز میں ایک رجائی سوچ کو فروغ دے کر پوری دنیا کو یہ پیغام بھی دیا جا رہا ہے کہ ہم کتنے امن پسند لوگ ہیں، ہم کتنے روشن خیال ہیں، ہم کتنے فعال اور باہمت ہیں، ہم کھیلنا اور جیتنا جانتے ہیں۔

تازہ ترین