گزشتہ دنوں برادرم زاہد ملک صاحب نے اپنا ایک مضمون ”قوم مطمئن رہے ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں“ مجھے ارسال کر کے عزت افزائی کی۔ زاہد ملک صاحب جن کا محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے قریبی تعلق ہے اور وہ ان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے چار کتب کے مصنف بھی ہیں۔ انہیں مغربی استعمار کی دشنام طرازی نے یہ مضمون لکھنے پر اکسایا ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ یہودی ملکیت والے تمام مغربی اور امریکی اخبارات اور ایسے متعدد یہودی پالیسیوں پر کار بند اخبارات پاکستان اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ایٹم بم نہ ہوا کوئی کھلونا ہوا جو کسی اسٹور کے شوروم میں سجا ہوا ہے جسے کوئی بھی چور اُچکا دہشت گرد کسی بھی وقت اڑا سکتا ہے۔حیرت ہے کہ تمام مغربی دنیا اور خصوصاً تمام ایسے ممالک جو خود جوہری قوت کے حامل ہیں اور سپرپاور کہلاتے ہیں۔ ان کے ذرائع ابلاغ کو دنیا کی جدید ترین سہولتیں میسر ہیں اور جو دنیائے ابلاغیات میں معتبر اور زیادہ معلومات افزا جانے جاتے ہیں ان کی بے خبری اور لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ دنیا میں کسی بھی ملک کے پاس اگر ایٹمی قوت یا ایٹم بم ہے تو وہ خود اپنی حفاظت سے زیادہ اس ایٹم بم کی حفاظت کا نظام وضع کرتا ہے اور خیال رکھتا ہے کیونکہ ذرا سی غلطی سے خود اس ملک کی‘ اس کے لوگوں کی سلامتی داؤ پر لگ سکتی ہے چہ جائیکہ کسی ایٹم بم کا کسی دہشت گرد کے ہاتھ لگ جانا دراصل یہودی لابی روزاول سے ہی کوشاں رہی ہے اور اس کی ان کوششوں میں تمام غیر اسلامی دنیا بھی شریک رہی ہے کہ کسی طرح پاکستان جو کہ ایک اسلامی مملکت ہے ایٹم بم نہ بنا سکے اور اب جبکہ کسی نہ کسی طرح ان کی ناک کے نیچے پاکستان نے ایٹم بم اپنے ذرائع، اپنی قابلیت اور علم کے ذریعے بنا ہی لیا ہے تو اسے برقرار نہیں رہنا چاہئے اس سلسلے میں انہوں نے ایٹمی قوت کا دہشت گردوں کے ہاتھوں لگنا اور اس سے تباہی پھیلنے کے امکانات کا تمام غیر مسلم دنیا کو باور کرانے کے لئے خود ہی طرح طرح کی پروپیگنڈہ فلمیں بنا کر دنیا بھر میں پھیلادی ہیں تاکہ عام آدمی جسے ایٹمی خطرات کا کچھ خاص پتہ نہیں ہوتا اسے ایٹمی توانائی کے خطرات سے ڈرا دیا جائے تاکہ جب وہ کسی بھی ملک کے خلاف ایٹمی تنصیبات کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کی مہم چلائے تو عوام ان کی مخالفت نہیں کریں اور یوں وہ اپنی من مانی بآسانی کرسکیں۔
ذرائع ابلاغ اگر نہیں جانتے توجوہری قوتیں تو یہ جانتی اور سمجھتی ہیں کہ کسی بھی ایٹم بم تک رسائی نہ تو اتنی آسان ہے کہ کوئی دہشت گرد اس تک پہنچ سکتا ہے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو بھی جاتا ہے تو وہ ایٹم بم ان دہشت گردوں کے لئے ایک بے کار محض چیز سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ بقول زاہد ملک کے ایٹم بم کبھی بھی تیار حالت میں نہیں رکھا جاتا یعنی ایسا نہیں ہے کہ بٹن دبایا اور چل پڑا بلکہ اگر کبھی خدانخواستہ ضرورت بھی پڑے گی تو اسے قابلِ استعمال کرنے کے لئے بھی تیز تر حرکت کے باوجود کم ازکم دودن لگ سکتے ہیں۔ ایٹم بم کے سیکڑوں اجزا کو نہایت احتیاط اور بڑی ہی مہارت کے ساتھ باہم جوڑنا پڑتا ہے تب جا کر وہ اس قابل ہوتا ہے کہ استعمال کیا جاسکے اور اسے استعمال کرنے کے لئے بھی جدید ترین فضائی جنگی جہاز یا طاقتورترین میزائل درکار ہوتا ہے تب جا کر وہ اس قابل ہوسکے گا کہ مقررہ ہدف پر گرایا جا سکے۔ اس کے لئے فول پروف ڈلیوری سسٹم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایٹم بم تو ایٹم بم ہوتا ہے کوئی والی بال نہیں کہ ایک طرف سے اچھالا اور نیٹ کے دوسری طرف پھینک دیا۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔ یہودی ذرائع ابلاغ یک زبان ہو کر پاکستانی جوہری توانائی کے خلاف مسلسل اور مکمل منصوبہ بندی سے زہر اگل رہے ہیں اور اپنے جھوٹ کو قابلِ یقین بنانے اور شکوک وشبہات پیدا کرنے کے لئے اپنا پورا زور صرف کر رہے ہیں۔