• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل پرویزمشرف جوماضی کا حصہ بن چکے تھے‘ عدالتی کارروائی کے نتیجے میں ایک بار پھر خبروں میں نمایاں ہو رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ آنے والے کچھ دنوں تک وہ میڈیا پر چھائے رہیں گے۔ اس صورتحال نے تنہائیوں میں مرجھائے ہوئے جنرل مشرف کوپھر سے چاق و چوبند کر دیا ہے۔ وہ دھڑا دھڑ ملاقاتیں کرتے ہیں۔ انٹرویوز دیتے ہیں۔ بیانات جاری کرتے ہیں اور پاکستان میں اپنے ساتھیوں سے رابطے قائم کر کے ان کے حوصلے بڑھاتے ہیں۔ انٹرویوز کے اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اب وہ ماضی کے سیاسی جوڑ توڑپر لب کشائی بھی کرنے لگے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے بتایا کہ اگر ”بے نظیربھٹو زندہ ہوتیں تو میں آج بھی ملک کا صدر ہوتا۔“ تفصیل کچھ یوں ہے کہ جنرل صاحب کے مطابق محترمہ شہید نے اس پر رضامندی ظاہر کر دی تھی کہ ان کی پارٹی کامیاب ہو گئی‘ تو وہ بطور صدر انہیں تسلیم کر لیں گی۔ مگر واقعات جنرل صاحب کے اس بیان کی تصدیق نہیں کرتے۔ جب حکمران فوجی ٹیم سے محترمہ شہید کے مذاکرات چل رہے تھے‘ تو اس وقت صدر مشرف اور ان کے نمائندوں نے یہ مطالبہ ماننے سے سختی کے ساتھ انکار کر دیا تھا کہ17ویں ترمیم کے تحت تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی جو پابندی ہے‘ اسے جنرل مشرف کی جیبی پارلیمنٹ کے ذریعے ختم کرا لیا جائے۔
ان مذاکرات کے بارے میں جنرل مشرف نے اپنے چند قریبی ساتھیوں کو اعتماد میں لیا ہوا تھا۔ جب حتمی فیصلوں کا وقت آیا تو جنرل مشرف نے محترمہ شہید کا یہ مطالبہ اپنے ساتھیوں کے سامنے رکھا۔ ان ساتھیوں میں جنرل مشرف کے خیالات کی ترجمانی کرنے والے حاضرین نے پرزور انداز میں یہ مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسے کسی بھی صورت تسلیم نہ کیا جائے۔ ان کی اور کچھ شرائط ہوں تو منظور کی جا سکتی ہیں۔ لیکن تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی پابندی ہرگز ختم نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس پابندی کی زدمیں آنے والے دونوں امیدوار جنرل مشرف کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے۔ محترمہ بے نظیر بھٹووزیراعظم بنیں تو ان کا حشر غلام اسحق خان جیسا ہو گا اور اگر نوازشریف وزیر اعظم بنے ‘ تو اس سے بھی زیادہ برا حال کر دیں گے۔ یہ مطالبہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں تھا۔ جنرل مشرف کے رازدانوں کی یہ باتیں سن کر سیاسی ذہن رکھنے والے حاضرین خاموش ہو گئے۔ جس پر جنرل صاحب نے اپنی رائے یوں دی کہ ”جب میرے تمام ساتھیوں کو یہ شرط قبول نہیں تو میں کیسے مان سکتا ہوں؟“ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو اس فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا۔ این-آر-او بی بی کا مطالبہ ہی نہیں تھا۔ اس کے بعد صرف انتخابات کے سلسلے میں کچھ انڈرسٹینڈنگ ہوئی۔ یہ بھی طے ہو گیا کہ محترمہ شہید انتخابات میں حصہ لے سکیں گی اور اس امر کی یقین دہانی بھی کرا دی گئی کہ انتخابات میں ان کے خلاف دھاندلی نہیں ہو گی۔ ان کی شہادت کے بعد ہونے والے انتخابات میں جو کچھ پیپلزپارٹی کے ساتھ کیا گیا‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنرل موصوف دونوں بڑی جماعتوں کو اکثریت سے محروم رکھنے کا انتظام کر چکے تھے۔ہرچند ان کے ساتھ ہونا وہی تھا‘ جو ہو گیا۔ لیکن ان کے منصوبوں اور انتظامات میں اس کی گنجائش ہی نہیں تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو یا نوازشریف ان کی موجودگی میں وزارت عظمیٰ حاصل کر سکیں۔ وہ چیف آف سٹاف کے عہدے پر فائز رہنا چاہتے تھے اور اسی طاقت کے ذریعے پارلیمنٹ کو کنٹرول کرنے کے خواہشمند تھے۔ ایسی صورتحال میں ان کی طرف سے یہ دعویٰ کہ بے نظیر انہیں منصب صدارت پر فائز رکھنے کا یقین دلا چکی تھیں‘ خلاف واقعہ ہے۔ بے نظیر انہیں صدر کے عہدے پر برقرار رکھنے کے حق میں ہوتیں‘ تو غیرفعال چیف جسٹس کی بحالی کا مطالبہ نہ کرتیں۔ ان کی رہائش گاہ پر جا کر یکجہتی کا اظہار نہ کرتیں اور انتخابی نتائج کے بارے میں بار بار یہ نہ کہتیں کہ اگر انتخابات میں دھاندلی کی گئی‘ تو نتائج قبول نہیں کئے جائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ بیرونی دوستوں کی مدد سے جو خفیہ رابطے اور مذاکرات ہوئے تھے‘ وہ اقتدار کے نشے میں سرمست جنرل پرویز مشرف کی وعدہ خلافیوں کے نتیجے میں بے معنی ہو چکے تھے۔ اسی بنا پر جنرل مشرف کی طرف سے باربار مخالفت کے باوجود محترمہ شہید نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا اور کراچی میں ان کا استقبال دیکھ کر جنرل موصوف کی ٹیم کے حواس اڑ گئے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ انہی لوگوں کی بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ کا نتیجہ ہے جو محترمہ کی کامیابی سے خوفزدہ تھے اور جنہیں یہ ڈر تھا کہ اگر وہ فیصلہ کن اکثریت کے ساتھ جیت گئیں تو وہ اقتدار میں نہیں رہ سکیں گے۔ کسی نے کہا ہو یا نہ کہا ہو۔ الزام لگایا ہو یا نہ لگایا ہو۔ مگر پاکستانی عوام روزمرہ کے تجربے کی بنا پر جانتے ہیں کہ جب کوئی قتل ہو تو پہلا شک اس پر کرنا چاہیے‘ جسے اس کا فائدہ پہنچا ہو۔ محترمہ کی شہادت پر شکوک و شبہات کے دھندلے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن عوامی سوچ اور حسیات کے اندر یہ فیصلہ موجود ہے کہ جنرل پرویزمشرف اس شہادت سے بری الذمہ نہیں۔ ان کے خلاف عوامی نفرت کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔
اس کے باوجود جو کچھ اب شروع ہوا ہے‘ اس نے بھولے بسرے جنرل پرویزمشرف کو نئی زندگی کی امید دلا دی ہے۔ چند روز پہلے تک تاثر یہ تھا کہ وہ بڑے آرام سے چلے گئے ہیں۔ پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں اور وہ کسی تکلیف میں نہیں۔ مگر جیسے ہی عدالتی کارروائی کے ممکنہ نتائج پر قیاس آرائیاں شروع ہوئی ہیں۔ پاکستانی عوام کے مزاج کے عین مطابق انہیں مظلومی کے پوائنٹس ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ سب سے زیادہ پوائنٹس انہیں کراچی میں مل رہے ہیں۔ مجھے ٹیلیفونوں اور ای میلز کے ذریعے پتہ چل رہا ہے کہ جو لوگ لیاقت علی خان کی شہادت کو نہیں بھولے‘ انہیں اپنی بے بسی کے آئینے میں پرویزمشرف کے چہرے کی جھلک نظر آنے لگی ہے۔ دوسری طرف سے سننے میں آ رہا ہے کہ جنرل پرویزمشرف سنجیدگی سے سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کا آغاز بیرون ملک پاکستانیوں سے کریں گے اور پھر ماحول کو اپنے حق میں سازگار کرتے کرتے ظلم اور زیادگی کا شکار بننے والے سیاسی لیڈر کے انداز میں واپس آسکتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کی پہلی منزل کراچی ہو گا اور اس کے بعد جیل ہو یا سٹریٹ۔ وہ دونوں جگہ فائدے میں رہیں گے۔ یحییٰ کے سوا‘ تینوں فوجی حکمران اقتدار سے محرومی کے بعد لوگوں کو یاد آنے لگے تھے۔ ایوب خان بڑھاپے کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ ضیاالحق کو اللہ نے مہلت نہیں دی۔ پرویزمشرف ”تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد“ کی کیفیت کیش کرا سکتے ہیں۔ ان کے خلاف جتنے غم و غصے اور وحشیانہ عزائم کا اظہار کیا جائے گا‘ وہ اسی قدر فائدے میں رہیں گے۔ سابق حکمرانوں کے لئے سب سے بڑی سزا یہ ہوتی ہے کہ انہیں فراموشیوں کے تاریک کنوئیں میں پھینک دیا جائے۔ انہیں سیاسی سٹیج پر دوبارہ نمودار ہونے کا موقع دینا خطرے سے خالی نہیں ہوتا اور پاکستان جیسے ملک میں تو بالکل نہیں ہوتا۔ صدر آصف زرداری کی اس پالیسی میں بہتر حکمت عملی تھی کہ پرویزمشرف کو بھلا دیا جائے۔
تازہ ترین