ملک میں بجلی کی شدید قلت ہے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ بچے بوڑھے بیمار سخت عذاب سے گزر رہے ہیں بجلی نہ ہو تو پانی بھی بند ہو جاتاہے بالخصوص کراچی میں کچھ علاقے ایسے بھی تھے جہاں تین سے چار روز تک بجلی نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگوں کو سخت تکلیف اٹھانی پڑی اور انہوں نے احتجاج کی راہ اپنائی۔ طرہ یہ ہے کہ بجلی کی قیمت میں 17 سے 30 فی صد تک اضافہ کا مژدہ سنایا جا رہا ہے۔ لوگوں کے احتجاج پر حکومت کے ایک وزیر ٹی وی پر بیٹھ کریہ فرماتے ہیں کہ احتجاج کرنے والے بل ادا نہیں کرتے۔ احتجاج کون کرتا ہے ، گرمی میں سڑک پر کون نکلتا ہے۔ ٹائر جلا کر آگ کے اردگرد کون لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔ ان میں بیشتر وہ لوگ ہوتے ہیں جو روزانہ مختلف مزدوری کرنے والے ہوتے ہیں جن کے گھر میں ایک بلب اور ایک پنکھا ہوتا ہے۔وہ کام نہیں کریں گے تو روٹی کہاں سے کھائیں گے۔ دیہی علاقوں کا نہ تو پہلے کوئی پرسان حال تھا نہ اب ہے۔ موجودہ حکومت صبح و شام جنرل مشرف اور سابق حکومت کو کوستی رہتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ جب سے آئے ہیں آپ نے ایسے کون سے کام کیے ہیں جس سے عام آدمی کو ریلیف ملا ہو۔ آٹے سے لے کر ہر چیز کے دام بڑھ چکے ہیں۔ اخبارات چیخ چیخ کر عوام کے دکھ درد کی داستانیں لکھ رہے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر شاید کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب حکومت کی گڈ گورننس پر بحث نہ ہوتی ہو۔ مجال ہے کسی کے کان پر جون رینگے۔ اب تو یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بجلی کے ساتھ ساتھ گیس کی بھی لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی ہے اور سردی میں اس میں اضافہ کا امکان ہے۔ IMF نے الگ شور مچایا ہوا ہے کہ اگر بجلی پر سبسڈی ختم نہ کی گئی تو قسط نہیں ملے گی اس لئے بجلی کے بل جولائی کے بعد مزید بڑھیں گے۔ آٹھ سال تک مشرف برسراقتدار رہے اور پھر ایک عوامی ریلے میں بہہ گئے۔ آج کل لندن میں قیام پذیر ہیں اور ملک پر ایک بار پھر پی پی پی کی حکومت ہے جو کسی قسم کی بھی گورننس دینے میں ناکام رہی ہے یہ تھی حکومتی کارکردگی۔ اب الیکشن کی طرف آتے ہیں 1970 کے الیکشن میں عوامی لیگ نے 38.3% ووٹ لیے اور پی پی پی نے 19.5% اسکا مطلب یہ ہوا کہ مغربی پاکستان میں 61% لوگ لاتعلق رہے۔ 1977 کے الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے پی پی پی نے 77.5% ووٹ لیے جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے قوم نے یہ الیکشن مسترد کر دیئے تھے مطلب یہ کہ عوام کی اکثریت نے مسترد کر دیا۔1988 کے الیکشن میں 43.1% ووٹ پڑے اسکا مطلب یہ ہے کہ 56.9% عوام لاتعلق رہے۔ پھر 1990 میں ٹرن آؤٹ 45.5% تھا اس کا مطلب اکثریت نے ووٹ نہیں دیا۔ اسی طرح سے 1993 میں ووٹرز ٹرن آوٹ 41% تھا اسکا مطلب59% لوگوں نے حصہ نہیں لیا۔ 1997 میں ووٹرز ٹرن آوٹ 35.2% تھا اسکا مطلب 64.8% لوگوں نے لاتعلقی دکھائی۔ اسی طرح سے 2002 میں ووٹرز جنہوں نے ووٹ ڈالے وہ 41.8% تھے اسکا مطلب اکثریت نے حصہ نہیں لیا۔ آخری 2008 کے الیکشن میں ووٹرز ٹرن آوٹ 43.5% تھا۔ یہ تفصیلات بیان کرنے کا ایک ہی مقصد ہے کہ لوگوں کو پتا چل سکے کہ ہم پر اقلیت حکمرانی کر رہی ہے جو کہ عوام کی اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتی۔ کوئی بھی حکومت جو عوام کی نمائندگی نہ کرتی ہو آپ اس سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں بجلی ہو یا نہ ہو، پانی ملے یا نہ ملے، بے روزگاری جتنی مرضی ہو مہنگائی جتنی مرضی بڑھ جائے، تعلیم، علاج معالجے کی سہولتیں ہوں یا نہ ہوں ان کی بلا سے۔ یہ ہے وہ سسٹم جسے ہم 62 سالوں سے اپنے ساتھ لیے چل رہے ہیں جب تک اس سسٹم کو آپ تبدیل نہیں کریں گے 200 ٹی وی چینل اور بھی کھل جائیں عدلیہ جتنی مرضی آزاد ہو جائے۔ لوگ ملک میں ناانصافی ، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ کا جتنا مرضی شور مچاتے رہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس میں اضافہ تو ہو سکتا ہے کمی کا امکان نہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے مسائل حل ہوں، آپ کو انصاف ملے تو آپ کو یہ سسٹم تبدیل کرنا پڑے گا اگر آپ نے اس سسٹم کو تبدیل نہ کیا تو کسی قسم کی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں سے جو کچھ آپ کو مل رہا ہے یہ تو ان کی مہربانی ہے وہ چاہیں تو اس پر بھی پابندی لگا سکتے ہیں کیوں کہ ہم لوگ اکثریت میں ہیں جنہوں نے ان کو مسترد کر دیا ہے پھر رونا پیٹنا کس لئے!!غریب و محنت کش عوام کے شب و روز ویسے ہی رہیں گے جیسے کہ وہ اس وقت ہیں حالات بیانات و اعلانات اور ریڈیو ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر پروپیگنڈہ کرنے سے نہیں بدلے جاتے اس کے لئے ہمیں نیند سے بیدار ہونا پڑے گا۔